ففتھ جنریشن وار فیئر اور ہماری حواس باختگی


بریکنگ بیڈ ٹی وی سیریز کا نام تو آپ نے سنا ہی ہو گا۔ اس میں ایک کردار ایک شاطر وکیل سال گڈ مین کا ہے۔ اسی کی زندگی پر ایک اور ٹی وی سیریز بنایا گیا جس کا نام بیٹر کال سال ہے۔ سال کا بڑا بھائی چَک بھی ایک بہت مشہور وکیل ہوتا ہے۔ لیکن اسے الیکٹروفوبیا ہوتا ہے۔ یعنی بجلی، شعاؤں اور ان سے چلنے والی ہر چیز سے خوف۔ اگر وہ کسی ٹرانسفارمر کے نیچے کھڑا ہو جائے تو وہ حواس باختہ ہو جاتا ہے۔ سانس پھول جاتا ہے، دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور پسینے میں نہا جاتاہے۔

اسی لیے وہ اپنے گھر سے بجلی کٹوا دیتا ہے۔ موبائل یا کسی قسم کا فون استعمال نہیں کرتا۔ موم بتیوں اور لالٹینوں کی روشنی میں کتابیں پڑھتا ہے۔ سر پر ایلومینیم فوائل کی دھاتی ٹوپی اور کمبل پہنے رکھتا ہے۔ حتی کہ علاج کے لیے ہسپتال تک نہیں جاتا۔ اس کا ماننا ہوتا ہے کہ اسے کوئی نفسیاتی بیماری، فوبیا یا پیرونیا نہیں ہے بلکہ یہ ایک اصلی بیماری ہے جس کا ڈاکٹروں کو بھی ابھی تک علم نہیں۔ اس نے اس بیماری کا نام بھی رکھا ہوتا ہے ؛ الیکٹرومیگنیٹک ہائپرسنسٹیویٹی سنڈروم۔

ہم نے بھی جب سے ففتھ جنریشن وارفیئر کا نام سنا ہے بڑی پریشانی کا عالم ہے۔ رات کو نیند نہیں آتی۔ کوئی ای میل یا میسج آ جائے تو دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ ہر وقت دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔ لہٰذا ہم نے بھی اس کے سدباب کے لیے کچھ عملی اقدامات کیے ہیں۔ لیپ ٹاپ کے کیمرے پر ٹیپ چڑھائی ہوئی ہے مبادا کوئی دشمن ہمیں ناگفتہ بہ حالت میں دیکھ کر بدنام نہ کر دے اور موبائل کو ایلومینیم فوائل میں لپیٹ کر رکھتے ہیں تاکہ کوئی ہماری باتیں نہ سنے۔ لیکن پھر دماغ استعمال کرنے کا خیال آیا تو ہوش آیا کہ کہیں ہماری بھی چک والی صورتحال تو نہیں۔

فوراً اپنے ایک دوست کا خیال آیا جو کافور کا کاروبار کرتے تھے لیکن بچپن سے کمپیوٹروں کے ساتھ لگے رہتے تھے۔ اس وجہ سے پڑھ نہیں پائے اور ایف اے کرنے کے بعد والد صاحب کا کاروبار سنبھالتے اور پارٹ ٹائم میں ٹویٹر پر دشمنان اسلام و پاکستان کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔ ان کی فین فالوونگ دیکھ کر لگتا ہے کہ ففتھ جنریشن وارفیئر کے اگلے مورچوں میں جنرل لگے ہوں گے۔ لوگ اسی وجہ سے حسد سے انہیں عجیب ناموں سے پکارتے ہیں جیسے کافورا۔ لیکن سند رہے میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔

پہلی مرتبہ ففتھ جنریشن کا نام انہی سے سنا لہٰذا انہی کے پاس حاضری دی۔ فرمانے لگے میرے پیرومرشد لال ٹوپی والی سرکار کے مطابق آج کل پرانے جنگی حربے ناکام ہو چکے ہیں۔ چنانچہ ممالک نفسیاتی اور مواصلاتی جنگ لڑتے ہیں۔ میں نے کہا اچھا تبھی یہ ٹویٹر پر ساری فارغ عوام گولے برسا رہی ہوتی ہے۔ ہو نا ہو کافی شدید اور خطرناک جنگ لگ رہی۔ یہ فرمائیں پہلی چار جنریشنز کون سی تھیں۔ کہنے لگے بیہودہ سوال نہ پوچھیں۔ یہ میمز (memes) کے نیوکلیائی اثرات ہیں کہ آپ کا دماغ خراب ہو گیا۔

ان کی ڈانٹ سے دلبرداشتہ ہو کر سوچا کچھ تحقیق کر لی جائے۔ کچھ پڑھے لکھے افراد سے پوچھا اور گوگل بھائی کی مدد حاصل کی تو معلوم ہوا کہ دنیا ابھی تک فورتھ جنریشن پر اٹکی پڑی ہے ففتھ کا کسی کو پتا ہی نہیں، لیکن ہم نے ففتھ پر ترقی کر لی ہے۔ ویسے امن پسند واقع ہونے کی وجہ سے دل ہی دل میں خوش ہوا کہ چلو یہ تو بڑی امن پسند جنگ لگ رہی، خدا کرے دنیا کو بھی اس کا جلد از جلد علم ہو جائے۔

اس اثناء میں ایک دوست سے بات ہوئی جو تازہ تازہ باہر کی ہوا لگوا کر آئے تھے۔ کہنے لگا یار ان لوگوں کو فیسبک پیج اور گروپ کا فرق نہیں پتا۔ یہ سن کر میں حب الوطنی سے سرشار دوبارہ کافورا بھائی کے پاس پہنچا اور کہا کہ اچھا نہیں کہ لوگوں کو کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کروائیں بجائے اسلحہ اور جہاز خریدنے کے تاکہ ففتھ جنریشن وار اچھی طرح لڑی جا سکے۔ یہ سن کر وہ پھر آگ بگولا ہوئے کہ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت تمہارے والد محترم کریں گے؟ میں پھر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔

خیر چک کا انجام سنیں۔ ایک دن اس کی لالٹین کتابوں پر جا گری اور اس کا گھر جل گیا اور وہ اسی میں جل کر مر گیا۔ تب سے میں اور زیادہ کنفیوزڈ ہوں کہ کہیں اس ففتھ جنریشن وارفیئر کے چکر میں اور بیوقوفی اور حواس باختگی میں ہم کہیں اپنا گھر ہی نہ جلا بیٹھیں۔

ڈاکٹر عاکف خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر عاکف خان

مصنف فزیکل سائینز میں پی ایچ ڈی ہیں۔ تدریس اور ریسرچ سے وابستہ ہونے کے ساتھ بلاگر، کالم نویس اور انسانی حقوق کےایکٹیوسٹ ہیں۔ ٹویٹر پر @akifzeb کے نام سے فالو کیے جا سکتے ہیں۔

akif-khan has 10 posts and counting.See all posts by akif-khan