ملک نیمروز میں انسان کو بکرے کا جگر لگاتے ہیں


عبدالستار ایدھی مرحوم کے بعد از مرگ اپنی آنکھوں کا عطیہ دینے پر بات چل رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ حرام کام ہے۔ ہم نے غور کیا تو بات معقول ہے۔ انسان کا جسم اس کی اپنی ملکیت نہیں ہوتا ہے، بعد از مگر اس کی چیر پھاڑ ہمیں جائز نہیں لگتی ہے۔ ویسے یہ مردہ انسان کا پوسٹ مارٹم وغیرہ بھِی بند ہونا چاہیے اور بندہ قریب المرگ ہو تو اس وقت یہ کام کر لینا چاہیے مگر ہم اس پر بعد میں کسی وقت غور کریں گے۔ موضوع پر واپس آتے ہیں، کسی مردہ انسان کا عضو دوسرے کو لگانا مناسب نہیں ہے۔ آپریشن کے دوران زندہ انسان کا خون دوسرے انسان کو لگانا اور بھی زیادہ غلط ہے کیونکہ خون کی حرمت تو انسانی جسم میں سب سے زیادہ بیان کی گئی ہے۔ حلال جانور کا خون بھی حرام ہوتا ہے۔ ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ملک نیم روز سے ایک خبر ملی۔ آپ بھی پڑھ لیں۔

ملک نیم روز کے لوگ نہایت نیک ہو چکے تھے۔ ان کے موبائل فون پر بھی تصویر نہیں ہوتی تھی۔ بس 1970 کے کمپیوٹروں کی طرح اے بی سی ہی لکھی ہوا کرتی تھی۔ لیکن سب سے بڑا انقلاب تو میڈیکل کے شعبے میں آیا تھا۔

ملک نیم روز کی اخلاقی نظریاتی کونسل کے احکامات پر نظام تعلیم میں دور رس تبدیلیاں کی گئی تھیں جن کا سب سے زیادہ اثر شعبہ طب پر پڑا تھا جس میں اب بہت زیادہ اخلاقی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ میڈیکل کالج میں پہلے بہت برا رواج تھا کہ لاوارث انسانی لاشوں کو لا کر میڈیکل کے طلبہ کے حوالے کر دیا جاتا تھا کہ ان کی چیر پھاڑ کریں۔ کوئی طالب علم کسی مردے کا ہاتھ اٹھائے پھر رہا ہوتا تھا تو کسی کے ہاتھ میں انسانی ٹانگ ہوتی تھی۔ کوئی لاش کا پیٹ کھولے اندر جھانک رہا ہوتا تھا تو کوئی اس کا سینہ کھولے دل اور پھیپھڑے دیکھ رہا ہوتا تھا۔ اخلاقی نظریاتی کونسل نے انسانی لاشوں کی اس بے حرمتی پر پابندی لگا دی اور واضح طور پر بتایا کہ انسان کا جسم اس کی اپنی ملکیت بھی نہیں ہوتا ہے تو کسی میڈیکل کالج کے طالب علم کی ملکیت کیسے ہو سکتا ہے؟ اسی طرح ڈاکٹروں کو واشگاف الفاظ میں بتا دیا کہ کسی انسان کا عضو کسی دوسرے انسان کو نہیں لگایا جا سکتا۔

آج اس نئے نصاب کے تحتی سند پانے والے پہلے شخص ڈاکٹر اخلاق پرواز آپریشن تھیٹر میں داخل ہو چکے تھے اور آپریشن کی تیاری میں تھے۔

لیکن اندر داخل ہوتے ہی وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر باہر نکل گئے۔ دوسرے ڈاکٹر صاحب دوڑے دوڑے آئے اور پوچھنے لگے کہ کیا ہوا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اندر خواتین نرسیں ہیں جبکہ کونسل کے احکامات کے مطابق خواتین نرسوں پر مرد ڈاکٹروں اور مریضوں کی موجودگی میں علاج کرنے پر پابندی ہے۔ خواتین نرسوں کو نکال دیا گیا اور صرف میل نرس بچے تو ڈاکٹر صاحب اندر داخل ہوئے۔ پتہ چلا کہ ایمرجنسی میں اپنڈکس کا آپریشن تھا۔ مریض کا پیٹ چاک کیا گیا تو ڈاکٹر اخلاق کا صدمے سے برا حال ہو گیا۔ ‘یہ تو عورت ہے؟ نامحرم عورت۔ اس کا تولیدی نظم تو بالکل اس مینڈکی جیسا ہے جس کا میں نے میڈیکل کالج کے پہلے دو سال میں مطالعہ کیا تھا۔ اس کا علاج میں نہیں کر سکتا ہوں۔ نرس، اس کو ٹانکے لگا دو اور کسی خاتون ڈاکٹر کے پاس بھیجو۔ دو چار گھنٹے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اپنڈکس پھٹنے سے زہر پھیلتا دکھائی تو دے رہا ہے مگر اس کی جتنی لکھی ہے، اتنا ہی زندہ رہے گی’۔

اگلا کیس لایا گیا۔ اس بار ڈاکٹر اخلاق نے پیٹ کھولنے سے پہلے مریض کے منہ پر سے کپڑا ہٹا کر چیک کیا کہ وہ مرد ہی ہے۔ خوب تسلی کے بعد مریض کا پیٹ کھولا گیا۔ یہ بھی اپینڈکس کا کیس تھا۔ ڈاکٹر اخلاق مریض کے پیٹ کو کھول کر پندرہ بیس منٹ تک کچھ تلاش کرتے رہے۔ نرس نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب، کیا ہوا، اپنڈکس تو سامنے ہی ہے۔ جلدی کریں۔ خون بہہ رہا ہے۔

ڈاکٹر اخلاق کچھ شرمندہ سے ہوئے۔ کہنے لگے کہ ‘اصل میں میڈیکل کالج میں اب لاوارث انسانی لاش تو لائی نہیں جاتی ہے تاکہ لاش کی بے حرمتی نہ ہو۔ اس لیے اب ہم سال اول و دوئم میں مینڈک کا آپریشن کرتے ہیں، سال سوئم میں خرگوش کا، اور سال چہارم اور پنجم میں بکرے کا۔ اس بندے کا پیٹ کھول کر تو میں حیران ہو گیا ہوں، نہ یہ اندر سے مینڈک جیسا ہے، نہ خرگوش جیسا اور نہ ہی بکرے جیسا۔ بہرحال تمہیں یقین ہے ناں کہ یہ اپینڈکس ہی ہے؟ یہ تو بہت چھوٹی سی نالی ہے۔ مجھے تو یہ بڑی سی نالی اپینڈکس لگ رہی ہے۔ اسے کاٹ کر نکال دیتا ہوں’۔

نرس پریشان ہو کر بولا ‘ڈاکٹر صاحب، یہ تو اس کی چھوٹی آنت ہے۔ اسے اندر ہی لگی رہنے دیں۔ ورنہ مر گیا تو مسئلہ ہو جائے گا’۔ ڈاکٹر اخلاق حیران ہو کر بولے ‘اچھا؟ انسان کی چھوٹی آنت یہ ہوتی ہے؟ مجھے تو یہ چھوٹی والی نالی چھوٹی آنت لگ رہی تھی۔ سب سے چھوٹی تو یہ ہے’۔ نرس بولا ‘ڈاکٹر صاحب، یہ چھوٹی سی والی اپینڈکس ہے۔ اسے نکال دیں۔ اور خون بہت ضائع ہو رہا ہے۔ اسے خون کی بوتلیں لگانی پڑیں گی’۔

ڈاکٹر اخلاق نے اعتماد سے کہا ‘اس کی جتنی لکھی ہے، اتنی ہی ہو گی۔ اس کو کسی دوسرے انسان کا خون نہیں لگا سکتے ہیں۔ خون بڑی حرمت والی شے ہے۔ کسی بھی شخص کا بدن اس کی ملکیت نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ صرف اس کا امانت دار ہوتا ہے۔ ایک شخص جس چیز کا مالک ہی نہیں ہے تو اسے کسی دوسرے شخص کو کیسے دے سکتا ہے؟ اس مریض کو کسی دوسرے انسان کا خون نہیں لگے گا۔ اسے گلوکوز کی ڈرپ لگا دو۔ اس کی قسمت کہ زندہ رہے یا مر جائے، مگر حرام کام سے تو بچ جائے گا’۔ خون نہیں لگایا گیا اور مریض کو تقریباً نیم مردہ حالت میں آپریشن تھیٹر سے رخصت کیا گیا۔

اگلا آپریشن جگر کا تھا۔ ایک شخص اپنا جگر عطیہ کر گیا تھا اور اسے ایک ایسے شخص کو لگایا جانا تھا جس کا جگر ناکارہ ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر اخلاق نے اخلاقی بنیادوں پر مردہ خراب کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے مریض کو بکرے کا جگر لگا کر دینے کی پیشکش کی مگر مریض راضی نہ ہوا۔ ڈاکٹر اخلاق نے بہت سمجھایا کہ وہ پورے دو سال تک بکروں کی جراحی پر ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں مگر وہ مریض کو بکرا بنانے میں کامیاب نہ ہو پائے۔ تھک ہار کر ڈاکٹر اخلاق نے مریض کو ایک وظیفہ بتا کر واپس بھیج دیا۔

شام تک سات آپریشن ہوئے۔ یہ ان مریضوں کا دن تھا جن کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ ساتوں مر گئے۔ اس میں ڈاکٹر اخلاق کی ہرگز بھی کوئی غلطی نہیں ہے۔ ڈاکٹر اخلاق کی آپریشن ٹیبل پر آج تک کوئی مینڈکی، خرگوشنی یا بکری فوت نہیں ہوئی تھی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments