ولی عہد جا چکے ہیں، سحر سے باہر نکلیں


سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنا دورہ مکمل کرکے واپس جا چکے ہیں۔ ملکی تاریخ میں نوجوان سعودی شہزادے کو معمول سے بڑھ کر پذیرائی ملی۔ کیا خواص تو کیا عام، ہر ایک نے اس دورے کو تاریخی قرار دیا۔ شاید اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ سعودی شہزادہ خطیر رقم کی سرمایہ کاری پاکستان کی جھولی میں ڈالنے کا اعلان کر گئے ہیں۔ نہ صرف اعلان ہوا بلکہ باہمی مُفاہمت پر دستخط ہوئے جبکہ باہم شیر و شکر ہونے کا ایک بار تجدیدِ عہد بھی کیا گیا۔

محمد بن سلمان کا یہ دورہ سرمایہ کاری کے اعتبار سے منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ پاک سعودیہ تاریخی تعلقات کا دیرینہ تسلسل بھی سمجھا گیا۔ اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں خود کو پاکستان کا ”سفیر“ قرار دیا جبکہ جہاں کہیں بھی تقریب ہوئی یا خطاب و تقریر کا سلسلہ قائم ہوا وہاں وزیراعظم عمران خان کی مسکراہٹیں دیدنی تھیں۔ سعودی شہزادے کی یہ عاجزانہ پیشکش کہ مجھے پاکستانی ”سفیر“ سمجھو اور وزیراعظم کی نپی تُلی مسکراہٹیں، دونوں اِس بات کی غماز تھیں کہ ماضی کی نسبت اس بار کچھ زیادہ ہی ”یارانہ” بڑھا۔

تنقیدی رائے رکھنے والے حضرات نے اس مرتبہ بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ”ڈرائیور“ بننے کے عمل کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ معترض تھے کہ ایک مُلک کے وزیراعظم کو اپنے پروٹوکول اور رُتبہ کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ خیر سگالی کا اظہار ضرور کیا جاتا لیکن اس قدر بھی نہیں کہ آپ کے رُتبے اور مقام کو کمتری کا درجہ مل جائے۔ جبکہ انصافیوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے اپنے برادر اسلامی ملک کے آئندہ کے حاکم کی پذیرائی کی ہے۔

اس میں غلط کیا ہے۔ ملکوں اور ریاستوں میں تعلقات کی بُنیاد باہمی احترام و آداب پر رکھی جاتی ہے۔ ایک سربراہ مملکت کی حیثیت سے وزیراعظم نے وہی کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ انصافیوں کا نقطہ نظر تھا ایک طرح سے معترضین کے لئے ”کرارا“ جواب تھا۔ ویسے بھی انصافیوں کے پاس بات کرنے اور بات منوانے کے لئے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کافی ہے۔

سعودی شہزادہ کی آمد سے قبل سوشل میڈیا کے ”شہزادوں“ کو ”سبق“ سکھانے اور ”مہذب“ بنانے کی حکمت عملی وضع ہوئی۔ جبکہ ”سزا“ دینے کے حکم نامے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بعض گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ ایک متنازعہ نوٹیفیکشن کا اجراء ہوا، جس میں ایک فرقے کو ٹارگٹ کرکے بتایا گیا کہ یہ فرقہ سعودی شہزادے کی آمد کو سوشل میڈیا میں لے جاکر سبوتاژ کرسکتا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے اس حرکت کا نوٹس لیا لیکن مُلکی تاریخ میں ایک فرقہ کو باضابطہ ”پروپیگنڈہ مشنری“ کی صف میں شامل کرکے اچھی روش ظاہر نہیں کی گئی۔ خود عمران خان حکومت کے لئے یہ ایک بدنُما داغ بن گیا۔

محمد بن سلمان کے مخالفین کے نزدیک یہ وہی شہزادہ ہے کہ جس کی سربراہی میں آج بھی یمن پر حملے جاری و ساری ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی تو ہے جو یمن کے معصوم بچوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہے اور قحط سالی کے موجب بننے والے ہی دراصل یمن کی بربادی کے پوشیدہ دشمن ہیں۔ بہرحال پاکستانی حکومتی اہلکاروں کے مطابق یمن کی بربادی اور قحط سالی پر پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ وہ یمن کے عوام کے ساتھ ہے۔ جبکہ ایک دیرینہ دوست اور کاروباری پارٹنر کی حیثیت سے سعودی عربیہ کا مقام ہمیشہ اونچا رہے گا اور باہمی تعلقات میں کوئی بھی خلیج سدِ راہ نہیں ہو سکتی۔

اس مرتبہ سعودی شاہی رکن کا یہ دور ایک ایسے وقت میں ہوا جب ہندوستان اور ایران پر دہشت گرد حملے ہوئے اور ان حملوں میں قریب قریب 70 افراد، 46 ہندوستان میں اور 30 کے قریب افراد ایران میں اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ دونوں ممالک میں ہوئے خود کش حملوں میں کسی قدر مماثلت بھی تھی۔ دونوں ہی حملے فوجی جوانوں پر ہوئے اور دونوں ہی خود کش تھے۔

دو دہشت گرد واقعات اور سعودی شہزادہ کے دورے نے سیاسی درجہ حرارت کو کافی گرما دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں الزامات کی گفتگو کی بجائے ہوشمند فیصلے دور رس نتائج دے سکتے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اگر اِن معاملات کو سطحی نقطہ نظر سے دیکھنے اور پھر حتمی فیصلہ کیا جائے، گہرائی کے ساتھ اور دور اندیشی کا عمل ملحوظِ خاطر ہو۔ ہم ہر بات کو مفروضات سے اور خیالی تصورات و تجزیوں سے ثابت کرتے ہیں کہ فلاں واقعہ کا اصل محرک یہ (خود ساختہ مفروضہ) تھا دراں حالانکہ ایسا ہونا ممکن بھی ہوسکتا ہے اور اس کے برخلاف بھی۔

ان تین واقعات کو ہی لے لیجیے کہ بڑے بڑے لکھنے والے سازشوں کی ایسی ایسی تھیوری پیش کرتے ہیں کہ فی الواقعہ ایسا ہوا بھی نہ ہو تو ایسا ہونا یقینی اور حتمی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے دو اہم پڑوسیوں کو بھاری بھر کم جانی نقصان اُٹھانا پڑا اور لکھنے والے کہہ گئے کہ ان واقعات میں بہت بڑی سازش رچائی گئی ہے۔ سازشوں کے تانے بانے سعودی شہزاد محمد بن سلمان کے دورے سے جوڑا گیا اور نتیجتاً ایران اور پاکستان کے تعلقات میں سردمہری کی صورتحال دُر آئی۔

ایران کی طرف سے باقاعدہ کہا گیا کہ ان پر حملے کرنے والے غیر ریاستی عناصر ہیں اور وہ پاکستان میں چھپے بیٹھے ہیں۔ جبکہ تلخ اور تند لہجے میں پیغام بھی دیا گیا۔ اس مرحلے میں دونوں ملکوں کو صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا۔ الزام تراشیاں کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان شروع سے ہی مضبوط اور دیرینہ تعلقات ریے ہیں۔ ان تعلقات میں سرد مہری اور خطرناک صورت حال آڑے نہیں آنی چاہیے۔ دونوں ممالک مسلم اُمہ کے لئے رہنماء ہیں۔

اگر خدا نخواستہ دونوں کے درمیان کوئی ان بن ہوئی تو مسلمانوں کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔ پاکستان کے تعلقات تمام مسلمان ملکوں سے مساویانہ ہیں۔ کسی ایک مسلم ملک کی طرف جھکاؤ نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے لئے سعودی عرب بھی اہم ہے اور ایران بھی۔ ایک ملک کو نظرانداز کرکے دوسرے کو فوقیت دینا پاکستان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا سعودی شہزادہ جا چکے ہیں اب خوابِ غفلت اورسحر سے باہر نکالنا ہوگا اور پوری ہوشیاری کے ساتھ معاملے کو باہمی افہام و تفہیم کی طرف لے جانا ہوگا۔

دوسری جانب ہمارے قریب میں موجود ایک بہت بڑی آبادی کے حامل پڑوسی ملک بھارت کو زعم ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی بھی نوعیت کی جارحیت کرسکتا ہے۔ اس بات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے راجستھان میں جنگی مشقیں بھی کی ہیں۔ جبکہ روزانہ آڑھی ترچھی آنکھ سے پاکستان کو دھکمانے اور راہ راستے پر لانے کے خواب بھی متواتر دیکھتا ہے۔ اپنی فلموں کی طرح روز پاکستان کو فتح کر کے دم لیتا ہے۔

پاکستان کی طرف سے پلوامہ حملے کی بھرپور مذمت کے باوجود ڈرانا دھمکانا غرور ہی ہوسکتا ہے، عقلمندی نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کی فوج ایک پیشہ ورانہ سپاہ ہے۔ یونہی دھمکیوں سے زیر کرنے کا ہندوستانی خواب شاید کبھی تعبیر کی شکل اختیار نہیں کرے گا۔ باہمی بات چیت ہی ملکوں میں احترام کا عنصر پیدا کرتی ہے اور دہشت گردی کی بیخ کنی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ہندوستان اور پاکستان دونوں کو مل کر دہشت گردی اور دہشت گردوں کو ختم کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).