دورے کا چورن کتنے دن بکے گا؟


ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا طوفانی اور یادگار دورہ اختتام کو پہنچا۔ شہزادے کو شاہانہ پروٹوکول دیا گیا۔ بے تحاشا پیسہ خرچ کیا گیا۔ اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے گئے۔ سعودی حکومت کی خوشنودی کی خاطر ہمارے ”، خوددار اور غیرت مند“ وزیر اعظم کو شہزادے کا ڈرائیور بھی بننا پڑا۔ یہ بیس گھنٹے کا دورہ ایک تہوار کی طرح منایا گیا۔ مہمان کا شاندار استقبال کرنا، اسے سر آنکھوں پر بٹھانا اور ناز اٹھانا ہماری تاریخی اور قومی روا یت ضرور ہے مگر ولی عہد کی عزت افزائی اور پزیرائی میں ہمیں خود نمائی، اصراف، نمود و نمائش اور تکلف و تصنع کا عجیب و غریب رنگ دکھائی دیا۔

مہمان جس قدر بھی اہم اور عزیز از جان ہو، ایک مفلوک الحال، پسماندہ اور اندرونی و بیرونی قرضوں میں بری طرح جکڑی ہوئی قوم کے وزیر اعظم اور ریاستی اداروں کی طرف سے پانی کی طر ح بہایا جانے والا پیسہ اور جشن طرب کا سا ماحول بنانے کے لوازمات فراہم کرنا ہر گز معقول نہیں تھا۔ سادگی اور کفایت شعاری کی پرچارک اس حکومت کو تو یہ انداز بالکل زیب نہیں دیتا۔ شہزادے کی آمد پر جڑواں شہروں میں تعلیمی اداروں کی بندش کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔ کسی مہمان کو عزت دینے کے لیے ہم سادہ مگر باوقار طریقے بھی تو اختیار کر سکتے ہیں۔ یہی ولی عہد صاحب اس کے بعد ہندوستان، انڈونیشیا، ملائشیا اور چین بھی تشریف لے جائیں گے مگر وہاں تو ایسی دیوانگی، تام جھام اور دھوم دھڑکا دیکھنے میں نہیں آتا۔ ہمارا رویہ غلامانہ ذہنیت اور مرعوبیت کا عکاس ہے۔

چو مکھی لڑنے والی موجودہ حکومت کے لیے یہ دورہ گویا سوکھے دھانوں میں پانی پڑنے کے مترادف ہے۔ دورے کے دوران سائن ہونے والے ایم او یوز اور یادداشتوں و معاہدات کا چورن مگر زیادہ دن بکتا ہوا نظر نہیں آتا۔ دورے کے اختتامی لمحات میں ولی عہد کی نواز، شہباز اور پچھلی حکومت کی تعریف ہی موجودہ حکومت کی خوشیوں پر پانی پھیرنے کے لیے کافی تھی اوپر سے ولی عہد نے یہ بھی فرما دیا کہ وہ آرمی چیف کی دعوت پر یہاں تشریف لائے ہیں۔

ابھی حکومت ان کے اسی بیان کا ماتم کر رہی تھی کہ سعودی عرب میں قید دو ہزار سے زائد پاکستانیوں کی رہائی کے شاہی اعلان کے نتیجے میں منائے جانے والے جشن طرب کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوٹ پڑا۔ عمرانی حکومت قیدیوں کی رہائی کا چورن کم از کم ایک ماہ تک تو بیچنے کا پختہ پروگرام بنا چکی تھی مگر برا ہو اس حقیقت کا جس کے مطابق سعودی عرب میں چھوٹے موٹے جرائم میں قید دیگر ملکوں کے بھی ہزاروں تارکین وطن موجود ہیں جنہیں سزا پورا ہونے کے بعد سعودی حکومت نے ڈی پورٹ کرنا ہی ہوتا ہے۔

اس میں کپتان صاحب کے کمال سے زیادہ وہاں کے قانون قاعدے کو دخل ہے۔ وہاں بادشاہت ضرور ہے مگر ہماری طرح ماورا آئین فیصلوں کا رواج نہیں۔ پاک باز اور پوتر حکومت نے کرپٹ اپوزیشن کو عشایے میں نہ بلا کر بالکل ٹھیک کیا ہوگا مگر کپتان کے دوست شیخ رشید کو کس جرم کی پاداش میں ولی عہد کی قدم بوسی سے محروم کیا گیا؟ عوام یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ ولی عہد کی رخصتی کے بعد اب وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی میں پھر سے کلاسز کا سلسلہ شروع ہو جائے گا؟

اور ہاں یہ جو کپتان صاحب نے فرمایا ہے کہ اگر شہزادہ معظم پاکستان میں الیکشن لڑیں تو انہیں ان سے زیادہ ووٹ ملیں گے، ہم ان کی اس بات کی سو فیصد تائید کرتے ہیں۔ مگر وہاں تو بادشاہت ہے الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اگر کپتان صاحب اپنے امپائرز شہزادے کو دے کر ان کی نگرانی میں الیکشن لڑیں تو وہ نہ صرف ان سے زیادہ ووٹ لے لیں گے بلکہ یہاں اپنی حکومت بھی بنا لیں گے۔ کپتان صاحب پر خود تو سلیکٹڈ کی پھبتی کسی جاتی ہے مگر انہیں یہاں غیر ملکی مہمانوں کو الیکشن لڑوانے کا بڑا شوق ہے، اس سے پہلے وہ یہ پیشکش بھارتی کھلاڑی اور پنجاب کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو کو بھی کر چکے ہیں۔ کچھ منہ پھٹ اور دریدہ دہن تو کپتان صاحب کو فی الحال یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ فی الحال تو وہ اپنے دوست نریندر مودی کو الیکشن جتوانے کے جتن کر رہے ہیں۔ کیسے؟ اس کی تفصیلات بھر کبھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).