پاکستانی منڈی اور سعودی شہزادہ


محمد بن سلمان ایک شہزادہ ہے جیسے شہزادے ہوتے ہیں۔ وہ ولی عہد سلطنت بھی ہے۔ وہ سلطنت جس کا شاہ فیصلے کرنے سے معذور نظر آ رہا ہے یا معذور کر دیا گیا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لئے اس نے جس طرح راستے کے پتھر ہٹائے ہیں وہ کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ وہ سعودی روایات سے ہٹ کے اوائل عمری میں حکومتی امور میں مدخل ہوا ہے۔ اپنے ہمعصر شہزادوں کو جس طرح ناکوں چنے چبوائے ہیں اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہر قیمت پر مخالفین کو راستے سے ہٹانا اس کے لئے معمول کی بات ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ جیسے طاقتورسربراہِ مملکت کے ساتھ تلواروں کا رقص اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ آپ طاقت کی زبان اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

محمد بن سلمان نہ تو کوئی نظریاتی انسان ہے نہ اس کاکوئی اخلاقی، سیاسی یا مذہبی نظریہ ہے۔ اس کا نظریہ طاقت کا حصول ہے جو صدیوں سے انسانی جنگل میں رائج ہے۔ اس طرح کی طاقت کے حصول کے لئے چنگیز خان نے لاکھوں انسانوں کو قتل کرایا۔ ہٹلر نے یورپ کو آگ کے جنگل میں تبدیل کیا۔ آج طاقت کا اظہار انسانوں کے قتل سے بڑھ کے انسانئیت کے قتل تک جا پہنچا ہے۔ انسان ایک بار مرتا ہے تو اس کی مارنے والے کے ظلم سے جان چھوٹ جاتی ہے۔

آج کا ظالم انسانوں کو معاشی طور پر بے کس و لاچار کرکے سسکا سسکا کر مارتا ہے۔ آی ایم ایف، ورلڈ بینک چلانے والے ادارے بنانے والے اسی طرح کے کردار ہیں۔ یہ ادارے پھر بھی ایسے ملکوں میں تشکیل پائے ہیں جہاں افراد کی بجائے قانون کی حکمرانی ہے۔ اور قانون کی پاسداری جہاں فرض اوّلیں سمجھی جاتی ہے۔ وہان قانون توڑنے والوں کے لئے سخت سزائیں مروّج ہیں۔ جبکہ سعودی عرب میں شخصی قانون ہے جو اب محمد بن سلمان کے تابع ہے۔

نہ یہ اسلامی ہے نہ جمہوری۔ یہ نظام نہ کیمونسٹ ہے نہ سوشلسٹ۔ اسی لئے آپ کے ایک اشارے پر دوہزار پاکستانیوں کو جیل سے رہائی مل گئی۔ یہ قیدی یقیناً چھوٹے موٹے یا بڑے جرائم میں ملوث ہوں گے۔ کسی نے چھوٹی موٹی چوری کی ہوگی کسی نے کفیل کا ادھار واپس نہیں کیا ہوگا۔ کوئی حرم پاک کی محبت میں ویزہ کی تاریخ اکسپائر کر بیٹھا ہوگا۔ یہ سارے گناہ گار شاہ کے ایک اشارے پر بری ہو گئے۔ کیونکہ ان کی سفارش پاکستان کے وزیر اعظم نے اس وقت کی تھی جب آپ شاہ کے مالی مفادات کی نگرانی کا شاہ کو تحریری یقین دلا چکے تھے۔ قانون توڑنے والوں کی سفارش ایک جمہوری حکمران نے ایک شاہ سے کی تو اس نے مان لی۔ سعودی شاہ نے جب پاکستانی آمر مشرف سے نواز شریف کی رہائی کی بات کی تھی تو مشرف کو ماننی پڑی تھی اور نواز شریف جو پرویز مشرف کا طیارہ ہائی جیک کرنے کے جرم میں ملوث تھا رہائی پا گیا تھا۔

محمد بن سلمان جب سے ولی عہد بنے ہیں سعودی عرب کا وہ تشخص جو اسے ایک اسلامی مملکت ہونے اور حرمیں شریفین کے محافظ ہونے کے ناطے حاصل تھا خاصا مجروح ہوا ہے۔ خواتین کی آزادی جو گھر کی چاردیواری تک محدود تھی اور حجاب میں ملفوف تھی، دراز ہوتی نظرآتی ہے۔ گاڑی چلانے سے امور مملکت میں شراکت داری تک عورت کی اہمئیت کو محسوس کیا گیا ہے۔ سینما گھر کھول دیے گئے ہیں۔ اور سیاحت کو فروغ دینے کے لئے ایسے جزیرے اپ گریڈ کئیے جارہے ہیں جہاں سیاح روائیتی طرز پر چھٹیاں گذار سکیں۔

اس سے پہلے اس طرح کی چھٹیاں گزارنے کے لئے صاحب ثروت سعودی بنکاک اور دبئی کا رخ کیا کرتے تھے جس پر کافی زرمبادلہ خرچ ہوتا تھا۔ زرمبادلہ خرچ کرنے میں عام متمول سعودی بھی شاہوں کی طرح شاہ خرچ ہوتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے مادی ترقی ہے ہی زرمبادلہ بچانے اور زرمبادلہ کمانے کا نام بھلے وہ مال بیچ کر کی جائے، جوان بیچ کر کی جائے یا عزت بیچ کر۔

پاکستان کا مسئلہ دوسرا ہے۔ بیچنے کے لئے مال ہے نہیں۔ ایسا مال جسے ہم جیسے غریب پاکستانی خریدنا پسند نہیں کرتے وہ شاہی مزاج رکھنے والے کہاں خریدیں گے۔ جوان ہمارے پاس وافر اور سستے ہیں۔ ان جیسا جفاکش محنتی اور وفادار جوان دنیا میں اور کہاں پایا جاتا ہے۔ اسی لئے امریکہ نے بار بار اس کی قیمت لگائی۔ اب سعودی بھی ہم سے یہی مال خرید رہے ہیں۔ آخری چیز عزت ہے۔ مال آئے گا تو عزت بھی آجائے گی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شاہ ہمیں کارخانے دینے آیا ہے تو وہ غلط سوچ رہا ہے۔

وہ اپنے کارخانے چلانے آیا ہے جنہیں سعودی کم از کم نہیں چلا سکتے۔ ہمارے مزدور خوشی خوشی ان کارخانوں میں شاہ کے لئے اپنا خون پسینہ بہائیں گے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالیں گے۔ ہمارے لئے یہی کافی ہے۔ ہمارے مزدور کے بچے بھوکے نہ رہیں۔ ہمارے جوان شاہوں کے بچوں کی حفاظت کرتے رہیں تاکہ ان کے اپنے بچوں کا پیٹ بھرتا رہے۔ شاہ کے مخالف بچے بھلے بھوکے مریں یا یتیم اور بے آسرا ہو جائیں، ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔

گزشتہ دنوں کسی شہر میں ایک دلچسپ ریس دیکھنے کو ملی۔ جہاں شوہر اپنی بیویوں کو کندھے پر اٹھائے ریس لگا رہے تھے۔ میاں بیوی جتنا ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں شاید ہی کوئی اور اعتماد کا ایسا رشتہ ہو لیکن میں نے دیکھا کہ بیویوں نے ہیلمٹ پہن رکھے تھے۔ وہ بیویاں اپنے شوہروں کے مضبوط کندھوں پر سوار تھیں لیکن اپنی جان کی حفاظت کے لئے ہیلمٹ بھی پہن رکھا تھا۔ محمد بن سلمان ہمیں اپنے کاندھوں پر اٹھا کر ہمیں معاشی ریس جتوانے کے لئی بھاگ رہا ہے لیکن ہمیں اپنی جان کی حفاظت کے لئے ہیلمٹ ضرور پہن لینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).