پروفیسر ابراہیم ارمان لونی کے حالات زندگی


بلوچستان کے ضلع لورالائی میں گزشتہ ماہ دہشتگردی کے یکے بعد دیگر واقعات ہوئے جس میں پولیس اہلکاروں سمیت ایک درجن تک افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دہشتگردی کے واقعات کے خلاف لورالائی کے نوجوانوں نے دھرنا دیا جو کئی روز تک جاری رہا۔ 2 فروری کی شام دھرنے میں شریک قلعہ سیف اللہ کے گورنمنٹ کالج کے پشتوکے پروفیسر ابراہیم لونی کی پولیس کے مبینہ تشدد سے ہلاکت ہوئی۔ ابراہیم ارمان لونی کے لواحقین سے گزشتہ روز غیر ملکی نشریاتی ادارے کے رپورٹر حفیظ اللہ شیرانی نے بات چیت کی۔

پروفیسر ابراہیم ارمان لونی کی والدہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ابراہیم ارمان لونی میر ا بڑا بیٹا تھا۔ ہم نے ساری زندگی غربت میں گزاری۔ پروفیسر ا رمان لونی مزدوری کرتے رہے، جب و ہ پروفیسر تعینات ہوئے تو ہماری زندگی بدل گئی اور ہمارے حالات اچھے ہونا شروع ہوگئے۔ ارمان لونی کی والدہ نے کہا کہ میرا بیٹا بہت خوش اخلاق تھا وہ ہر ایک کے ساتھ گھل مل جاتا تھا۔ جب بھی وہ گھر میں داخل ہوتے تو گھر میں خوشی کا سماں ہوتا، گھر کے ہر فرد کے چہر ے پر خوشی کے آثار نمایاں ہوتے۔

ارمان لونی کی تین بچیاں ہیں، بڑی بچی کی عمر پانچ سال ہے۔ ارمان لونی کی والدہ نے کہا کہ یکم فروری کو میرا بیٹا مجھ سے چھپ کر دھر نے میں شرکت کے لئے قلعہ سیف اللہ سے لورالائی گیا، بہنوں نے انہیں روکنا چاہا تو ارمان لونی نے کہا کہ والدہ کو مت بتانا کہ میں جارہا ہوں۔ انہوں نے اپنی بہنوں سے کہا کہ اب امی کو کہنا کہ وہ اب اپنے لئے دوسرا بیٹا اور بہنیں کسی اور بھائی کو ڈھونڈیں، ارمان لونی کی والدہ نے کہا کہ بیٹے نے رات کو واپسی کا وعدہ کیا تھا لیکن یکم فروری اور دوفروری کی درمیان شب ان کی لاش گھر آئی۔

پروفیسر ارمان لونی کی بہن اور ان کی سیاسی ساتھی وڑانگہ لونی نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ اپنے بھائی کے ساتھ گزارا۔ ہم دونوں ہر وقت سیاسی امور پر بات چیت کرتے رہتے تھے۔ ارمان لونی پشتون قوم کی ترقی وخوشحالی چاہتے تھے۔ ارمان لونی قبائلی معاشرے میں رہنے کے باوجود خواتین کی سیاست میں حصہ لینے کے حامی تھے۔ وہ کہتے تھے کہ مرد اور خو اتین دونوں مل کر قوم کی ترقی کے لئے کام کریں۔ پروفیسر ارمان لونی اور میں اپنی باتیں ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے۔ مجھے جو بھی مسئلہ ہوتا تھا میں اپنے والدین اور بہنوں کی بجائے میں اپنے بھائی سے مشورہ لیتی تھی۔ وڑانگہ لونی نے کہا کہ حکومت کی جانب سے تاحال ہم سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔

ارمان لونی کے والد جو پیشے کے لحاظ سے ڈرائیور رہے ہیں کا کہنا تھا کہ ارمان لونی ایک محنتی اور پیار کرنے والا انسان تھا۔ وہ ساری رات کام کرتا تھا اور صبح تعلیم حاصل کرنے کے لئے سکول اور کالج جاتا تھا۔ ارمان لونی نے اپنی پوری زندگی محنت اور پڑھائی میں گزاری۔ میرے بیٹے نے کوئلے کی کان میں بھی کام کیا، وہ ٹیلر ماسٹر بھی رہے۔ محنت مزدوری کے با وجود اپنی تعلیم نہیں چھوڑی اور دن رات پڑھتا رہا۔ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ پروفیسر تعینات ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ میرے بیٹا اتنا خوش اخلاق تھا کہ وہ ہم سے زیادہ دوسروں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا تھا، انہوں نے کہا کہ ارمان لونی صرف میرا نہیں بلکہ تمام مظلوموں کا بیٹا تھا۔

پروفیسر ارمان لونی کے والد نے کہا کہ بیٹے کی جوانی میں اس دنیا سے چلے جانے کے بعد میری اب کسی چیز میں دلچسپی نہیں رہی۔

وزیرداخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو کا مؤقف ہے کہ اب تک کی تحقیقات میں ارمان لونی پر پولیس کی جانب سے تشدد ثابت نہیں ہوا اور بظاہر موت کی وجہ طبعی معلوم ہوتی ہے۔ تاہم حکومت پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار کررہی ہے جس کے لئے نمونے حاصل کرکے فارنزک لیبارٹری بھیجے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کی روشنی میں مزید کارروائی کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).