عائشہ بیٹی، ہمیں تم پر فخر ہے


سوات کی آٹھ سالہ بچی عائشہ ایاز نے متحدہ عرب امارات میں ”تائیکوانڈو چمپئن شپ“ میں کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا، تو ملکی اور غیرملکی میڈیا پر اس ننھی بچی کے نام کا ڈنکا بج گیا۔

ہاں، کچھ حلقوں کی جانب سے یہ شکوہ بھی بجا ہے کہ سوات کا میڈیا صرف برف باری اور سیاحت تک محدود ہے، لیکن ایسی باہمت بچیوں کی حوصلہ افزائی میں میڈیا متحرک رہا۔ جیسا کہ اس سے قبل کھیلوں کے میدان میں نام کمانے والے نوجوان کرکٹر عمران جونیئر اور کِک باکسنگ میں اپنا لوہا منوانے والے یاسین احمد خان کی خوب حوصلہ افزائی کی جا چکی ہے۔ اس طرح اب عائشہ ایاز کی بھرپور کوریج لائقِ تحسین امر ہے۔

اس موقع پر سوات کے صحافی بھائی ننھی عائشہ ایاز کی ملک واپسی کا بے تابی سے منتظر تھے۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں پہنچ گئی، تو وائس آف جرمنی کے لیے کام کرنے والے صحافی دوست صحافی ”عدنان باچا“ کے ہمراہ ہم بھی اس ننھی بچی کے حوصلے کی داد دینے ان کی نجی مارشل آرٹس اکیڈمی گئے۔ وہاں یہ دیکھ کر ہماری خوشی دو چند ہوگئی کہ اکیڈمی مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا نمائندوں سے کھچا کھچ بھری تھی۔

قارئین کرام! کامیاب شخصیات کی کامیابی کے پیچھے کہیں نہ کہیں کسی کی حوصلہ افزائی اور سوچ کو توانائی بخشنے والوں کا کردار ضرور دیکھنے کو ملتا ہے۔ مگر سچ پوچھیں، تو ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ایک طرف ہم نوحہ کناں ہیں کہ ادب کا ستون گر رہا ہے، تو دوسری طرف فرمان کسکر جیسے بچوں کا ہاتھ تھامنے کی بجائے ہم ان کی کمزور کوششوں کو تفنن طبع اور تفریح کا سامان سمجھتے ہیں اور یوں ہم ان کے حوصلے کو چور چور کرکے رکھ دیتے ہیں۔ بہرحال ادب، سیاست، سماجی خدمات اپنی جگہ، لیکن کھیلوں سے وابستہ نوجوانوں کی کارکردگی کو بھی معاشرتی سہارا ملتا ہے اور نہ حکومتی سطح پر خاطر خواہ حوصلہ افزائی۔

دوسرا بڑا المیہ ہمارے معاشرے کا یہ ہے کہ بحیثیتِ والدین ہم اپنے بچوں کے اندر اپنی پسند کے ہنر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں وہ ہنر ان کا شوق نہیں بلکہ ان پر بوجھ ثابت ہوتے ہیں اور بقولِ شاعر

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اْدھر کے رہے

قارئین، معصوم مگر باہمت بچی عائشہ ایاز نے تین سال کی عمر میں تائیکوانڈو کا آغاز کیا۔ کامیابیوں کا زینہ چڑھتے ہوئی جب اس کو ”یو اے ای چمپئن شپ“ میں حصہ لینے کا موقع ملا، تو اس کی والدہ محترمہ اس کو کسی صورت مقابلہ میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ اس کے والد کے بقول عائشہ تین دن تک اپنی ماں سے اجازت لینے کے لیے بضد رہی، اور بالآخر نہ چاہتے ہوئے ماں نے بچی کو اجازت دے دی۔ پھر ماں سے جب ہم نے دریافت کیا، تو انہوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ ”مَیں اپنی رائے کو بچی پر مسلط کرنے کی سنگین غلطی کر رہی تھی۔ “ مگر جب بچی کو اپنی محنت کا ثمر ملتے دیکھا، تو انہوں نے دوسری ماؤں سے بھی درخواست کی کہ اڑوس پڑوس میں مختلف وہمی خیالات آپ کے بچوں کے اندر کی صلاحیتوں کو دبا سکتے ہیں۔ اس لیے کسی کی منفی باتوں پر کان نہ دھریں اور اپنے بچوں کو کھیلوں کے میدان میں جی بھر کر حصہ لینے دیں۔

عائشہ ایاز کی اکیڈمی میں کھیل سیکھنے والی ایک طالبہ ”فاطمہ“ اپنی مشکلات کو کچھ یوں بیان کرتی ہیں کہ ان کے والدین ان کو مارشل آرٹس میں جانے کی ہرگز اجازت نہیں دے رہے تھے۔ بہت منتوں اور اصرار کے بعد جب انہوں نے اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی، تو پھر بھی رشتہ داروں کی جانب سے اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا، لیکن عائشہ کی کامیابی نے ان سے اختلاف رکھنے والوں کو باور کرایا ہے کہ محنت کسی صورت رائیگاں نہیں جاتی۔ اب گولڈ میڈل کے حصول کی امید سے کھیلتی ہوں، لیکن اگر میں میڈل حاصل نہ کرسکی، تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں ناکام ہوچکی ہوں۔ تائیکوانڈو سے میرا جنون کی حد تک لگاؤ ہے اور اس کو پْرسکون دماغ سے کھیلنا ہی میری اصل کامیابی ہے۔

قارئین، ان بچیوں کی معصومانہ خواہشات اس قابل ہیں کہ ان کو سنا جائے۔ ان کو اپنی مرضی کے کھیلوں میں حصہ لینے دیا جائے۔ کیوں کہ کسی بھی کھیل میں کھلاڑی کی کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی پر ہے۔

دوسری طرف بحیثیت ایک شہری کے ہمیں کسی کی کمزور کوشش پر تنقید کرنے کی بجائے اس سوچ کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ کم از کم وہ اپنے اندر کی خواہشات کو ظاہر کرنے پر رضامند تو ہوچکے ہیں۔ تب جاکے ہم فرد کی کامیابی سے مشترکہ مستفید ہوسکیں گے۔ دعا ہے کہ اس ملک کی کامیابی میں ہمارے مثبت افکار کام آئیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).