انڈیا کے متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدوں پر ایک نظر


انڈیا کے پرائم منسٹر شری نریندرا مودی نے متحدہ عرب امارات کے اب تک دو دفعہ دورے کیے۔ اپنے پہلے دورے پر نریندامودی کراؤن پرنس محمد بن زیدالنحیان کے مدعو کرنے پر 16 اگست 2015 کومتحدہ عرب امارات پہنچے۔ دوسری دفعہ 10 فروری 2018 کو پھر عرب امارات کا دورہ کیا، اور اسی طرح متحدہ عرب امارات کے پرنس محمد بن زید نے انڈیا کا دوباردورہ کیا پہلی بار فروری 2016 اور دوسری دفعہ جنوری 2017 کو کیا گیا اورانکے ساتھ امارات کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر بھی شریک رہے۔

اب دیکھتے ہیں ان دونوں ممالک کے مابین کون کون سے خاص معاہدے دستخط ہوئے، پرائم منسٹر مودی کا پہلا عرب امارات کا دورہ غیرمعمولی کہا جا سکتا ہے کیونکہ 34 سال بعد کسی انڈین وزیراعظم کو UAE جانا نصیب ہوا۔ اس سے پہلے 1981 میں انڈیا کے وزیراعظم اندرا گاندھی نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے اگر کوئی کسی کے گھر دیر سے جائے تو اتنی زیادہ عزت میں اضافہ بھی ہوا کرتا ہے اور یہ بات کس حد تک صحیح ثابت ہوئی اس بات کا اندازہ آپ ان دونوں ممالک کے مابین طے پاجانے والے معاہدوں سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔

اور مودی کو دبئی کرکٹ سٹیڈیم میں خطاب کرنے کا موقع عرب امارات کی طرف سے دیا گیا تو پاکستان کی طرف اشارے کر کے ہمیں دہشت گرد ملک قرار دینے کی کو شش میں لگے رہے اور پورے سٹیڈیم میں پچاس ہزار لوگ تالیاں بجا کر داد بھی دیتے نظر آئے لیکن خیر ان دونوں ممالک کی گورنمنٹ نے کل ملا کر 72 آرٹیکلزپر دستخط کیے جن میں کہا جاتا ہے کچھ خفیہ رکھے گئے اور کچھ ظاہر کیے گئے لیکن ظاہر کرنے والے معاہدے بھی طویل ہونے کی وجہ سے یہاں ایک ہی دفع بیان کرنا ممکن نہی ہے اس لیے مخصوص آرٹیکلز پر نظر ڈالتے ہیں۔

معاہدہ طے پایا گیا کہ اب کے بعد ہم اس بات پر نظر رکھیں گے کہ دونوں طرف سے کوئی بھی مذہبی گروہ اپنے مذہب کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کے مابین نفرت کو فروغ نہ دے سکے یا سیاسی عزائم حاصل کرنے کے لیے دہشت گردی کا ارتکاب نہ کرے اس کے علاوہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنے مذہبی سکالر، دانشور حضرات کا تبادلہ کرتے ہوئے ایسی کانفرنسز منعقد کیا کریں گے جن کا مقصد مختلف مذاہب کے افراد میں برداشت پیدا کرنا ہو گا، امن و سلامتی کے دائرے میں رہتے ہوئے تمام مذاہب فلاح و بہبود کا درس دیں، دہشت گردی کے معاملات کو دیکھتے ہوئے ایک دوسرے کی خفیہ ایجنسیز مل کر جہاں آپریشن کرنا پڑا کریں گی، ہمیں جس ملک کے بارے میں محسوس ہوا کہ یہ دہشت گرد ہے اس کے خلاف مل کر اقوام متحدہ میں ووٹ کریں گے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت کرنے میں بھی ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے، معاشی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہوئے سائبر سکیورٹی کے حوالہ سے معلومات کا تبادلہ کریں گے۔

نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور نیشنل سکیورٹی کونسل کے درمیان بات چیت کا ایسا تسلسل قائم کریں گے کہ دونوں اقوام کی حفاظت کے لیے ان کے نمائندے ایک دوسرے سے ہر چھ ماہ بعد ملاقات کیا کریں گے تاکہ دونوں ممالک کی سکیورٹی ایجنسیز کے تعلقات کو بڑھاوا ملے اور باہمی تعاون سے اپنا ہدف پورے کر سکیں، انڈیا میں جنگی سامان کی تیاری میں امارات تعاون کرے گا، باقی تمام اقوام کو عزت کے ساتھ بلا کر مخلصانہ طور پرامن کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنے کی ہدایت کریں گے تاکہ خطے میں دہشت گردی یا تشدد جیسے واقعات نہ ہوسکیں، دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ امارات کے انویسٹمنٹ کرنے والے اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی تاکہ وہ انڈیا میں اپنا پیسہ انویسٹ کر سکیں، انڈیا کے ریلوے، بندرگاہوں، سڑکوں، ائیرپورٹس اور صنعتی فیکٹریز کے اطراف کی سڑکوں کے لیے متحدہ عرب امارات اپنے 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، دفاعی تعلقات بشمول ساحلی دفاع کو فروغ دینے کے لیے آئیندہ باقاعدگی سے دونوں ممالک کی برّی، بحری، فضائی افواج اور سپیشل فورس کی تربیتی مشقیں عمل میں لائی جائیں گی،

اس کے علاوہ پھر فروری 2016 کو جب پرنس زید النحیان انڈیا کے دورہ پر آئے تو تب اپنے تجارتی شریک بھارت کے تجارتی امور پر بخوبی جائزہ لیا تو معلوم پڑاکہ دوطرفہ اس تجارت سے 59 ارب امریکی ڈالر کا توازن قائم ہوا، جوکہ انڈیا جیسے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے یہ صرف آغاز تھا، اس کے بعد جنوری 2017 میں انڈیا کے جمہوری دن کا جشن منانے کے موقع پر خصوصی مہمان کے طور پرزید النحیان کو مدعو کیا گیا اور دونوں ممالک کے رہنماؤں کے مابین سکیورٹی کے حوالہ سے جو باتیں کی اور نریندرا مودی نے یہ بات کراؤن پرنس سے منوانے کے ساتھ ساتھ کہلوائی بھی کہ دہشت گردی کرنے والوں کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں اور خطے میں دہشت گردی برداشت نہیں کی جاسکتی، یہ بات کہتے وقت اشارہ پاکستان کی طرف رکھا اور مودی نے باقی ان ریاستوں کے نام بھی زیدالنحیان کو بتائے جو ان کے ملک میں دہشت گردی یا فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں کراؤن پرنس زید النحیان نے انڈیا میں سکیورٹی کے حوالہ سے، دہشت گردی کے خاتمہ اور فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم کیا اور ایسے تمام ممالک جن کے نام مودی نے ان کو فراہم کیے ان سب کے خلاف اقوام متحدہ میں آواز اٹھانے کا بھی ٹھان لیا۔

اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین کے قوانین کے مطابق دہشت گردوں کے نیٹ ورک، مالی امداد، اور انتہا پسند افراد کی تحریک کو جو اپنے ملک میں غلط سمجھیں اور دوسرے ملک کے لیے درست اس ڈبل گیم پر یقین رکھنے والے ممالک کو سزا دلوانے پر دونوں ممالک مل کر کام کریں گے۔ اور یہ جتنے بھی معاہدے میں نے یہاں لکھے یہ انڈیا کے ساتھ عرب امارات کے ساتھ تمام معاہدوں کا ابھی صرف بیس فیصد ہے باقی اسی فیصد کو بیان کرنا ابھی باقی ہے۔

پڑھنے والوں کی یاد دہانی کے لیے گزارش ہے کہ جب یہ تمام معاہدے عرب امارات کے ساتھ انڈیا کر رہا تھا تب ہمارے ہاں پاکستان میں صرف دو موضوع زیربحث رہا کرتے تھے، ایک پاناما لیکس اور دوسرا عمران خان کی شادی۔ کسی کی اس طرف نظر جانا تو درکنار، اس بات کو اہمیت تک بھی نہ دی گئی اور آج عمران خان کی حکومت میں سعودی ولی عہد سلمان بن محمد پاکستان تشریف لائے تو کسی بڑے پروجیکٹس پر بات چیت کرنے کی بجائے سعودیہ میں موجود قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر دیا گیا حالانکہ یہ مطالبہ بہت ہی کم اہمیت کا حامل ہے اس مطالبہ کو سب سے آخر میں زور دے کر بھی منوایا جا سکتا تھا۔

اور باقی جس بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سعودی ولی عہد کی جانب سے اعلان کیا گیا اس کا جواب نواز شریف نے فوراً دے دیا کہ اس سرمایہ کاری پر سعودیہ کو میں پہلے سے راضی کر چکا تھا، نواز شریف کی اس بات کو ہم تحریک انصاف کی محبت میں سچ تو مان لیں لیکن عمران خان کی حکومت جب سے بنی ہے صرف پچھلی حکومت کے پروجیکٹس کو دوبارہ لاؤنچ کر کے اپنی داد سمیٹنے میں مصروف نظر آتی ہے، لیکن ہم پر امید ہیں شاید ہمارے وطن عزیز پاکستان کے حالات اگلے دس ہزار سالوں تک کچھ بہتر ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).