اسپیکر سراج درانی کی گرفتاری پر سندھ میں رد عمل کیوں نہیں آیا؟


سندھ میں اسمبلی کے اسپیکر کی گرفتاری پر کوئی رد عمل سامنے آنے کے بجائے سوشل میڈیا پر لوگ خوشی کا اظہار کیوں کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ صرف ایک ہی ہے کہ باوجود ایک بہت بڑا بجٹ ملنے کے اور گیارہ سال بغیر کسی رکاوٹ کے حکومت کرنے کے پیپلز پارٹی نے سندھ میں میں جو کارکردگی دکھائی ہے اس سے یہ خطہ سو سال پیچھے چلا گیا ہے۔

انگریزی روزنامہ ڈان نے سندھ بھر سے اپنے نمائیندوں کی رپورٹس شایع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی گرفتاری پر سندھ بھر میں کہیں پر کوئی بھی احتجاج یا رد عمل نظر نہیں آیا۔

سوشل میڈیا کے ایک ایکٹوسٹ ماجد مقصود جو کہ پیپلز پارٹی کے حامی ہیں نے جب اپنی وال پر یہ سوال کیا کہ۔ کیا سندھ میں آغا سراج درانی کی گرفتاری پر کوئی رد عمل ہوا ہے؟ تو ان کے اس سوال پر نوے فیصد کمینٹس میں لکھا تھا ”خو شی ہوئی“

اس سلسلے میں انور عزیر چانڈیو نے اپنی فیس بک وال پر لکھا ہے ”سراج درانی کی گرفتاری پر سندھ سے عوامی ردعمل کا نہ آنا بذات خود بہت بڑا ردعمل ہے۔ “ کراچی میں اک دیہاتی ارشاد رانجھانی کے قتل پر لاکھوں لوگوں کے احتجاج اور کراچی میں کارساز پر ہزاروں لوگوں کی مظاہرے نے ثابت کیاکہ سندھ میں لوگ حق اور سچ کا ساتھ دینے کے لئے خودبخود اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ درانی کی گرفتاری پر صرف پ پ پ قائدیں کا عوام کے بغیر احتجاج، اور سندھ کے دیہی علاقوں سے خاص ردعمل کا نہ آنا، بذات خود بہت بڑا ردعمل ہے۔ ”تحقیق اس میں“ سوچنے اور سمجھنے والوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں۔

سینئر صحافی اور سندھ کے سب سے بڑے روزنامے کاوش کے ایڈوٹوریل ایڈیٹر منظور میرانی نے آغا سراج درانی صاحب کی گرفتاری کے بعد آصف علی زرداری صاحب کی پریس کانفرنس کے رد عمل میں اپنی فیس بک وال پر لکھا ”کیا زرداری کا نام جمہوریت ہے؟ کہ جب بھی گرفتاری کا خوف ہوتا ہے کہتا ہے۔ جمہوریت خطرے میں ہے“۔

ایک اور سینئر صحافی، ڈان ٹی وی کے سابق ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز ماجد صدیقی نے اپنی وال پہ لکھا ہے کہ ”سراج درانی کی گرفتاری پر پورے سندھ میں خوشی کی لہر، سوچیے جب ملزم زرداری کی گرفتاری کی خبر آئے گی تو خوشی کی کا لیول ہو گی۔ “

ایک بزرگ صحافی اور بھٹو صاحب کے دور میں ان کی اخبار ہلال پاکستان کے اس وقت کے ایڈیٹر دستگیر بھٹی نے اپنی وال پر آغا سراج درانی کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ، جب بھی کوئی دو نمبری اور کرپٹ پکڑا جاتا ہے کہتے ہیں صوبائی خود مختیاری اور سندھ پر حملہ ہے۔

کراچی میں سما ٹی وی کے رپورٹر منصور مغیری نے اس گرفتاری پر اپنا رد عمل لکھا ہے کہ۔ ”سندھیوں کے ووٹ پر پیشاب کرنے والے سراج درانی تو بھول گئے ہوں گے مگر ہم نہیں بھولے۔ اب وہ قوم پرست بن جائیں گے، کاش کے وہ وڈیو سب دیکھ لیں“۔ ( یاد رہے کی گذشتہ الیکشن میں سراج درانی صاحب کی ایک وڈیو کلپ وائرل ہوئی تھی جس میں الیکشن ورک کے دوران وہ ایک کارنر میٹنگ میں ایک نوجوان کے سوال کے رد عمل میں یہ کہتے ہیں کہ میں آپ کے ووٹوں پہ موتتا ہوں ) ۔

آسٹریلیا میں مقیم معاشی ماہراورسوشل میڈیا ایکٹوسٹ گلشیراوڈ نے اپنی فیس بک وال پر لکھا ہے کہ ”حکومت جس کو بھی گرفتار کر رہی ہے سندھ کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے ایسا کیوں؟ “

پروفیسر امر سندھو نے اپنی وال پر اس گرفتاری پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ”تمہاری اسمبلی، اور لوگوں کے ووٹ کی ایسی کی تیسی، اسلام آباد تمہارے لئے آج بھی کوفہ ہے۔ مگر امر سندھو کے ان کمنٹس کے رد عمل میں پر بڑی تعداد میں لوگوں نے انہی کی وال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوے ان کی اس بات کو کرپشن کے مسئلے پر سندھ کارڈ کھیلنے کی کوشش قرار دیا ہے۔

اسی طرح لندن میں مقیم ایک پرانے سندھی کامریڈ گل میتلو نے نیب کو ہی ایک غیر آئینی ادارہ قرار دے دیا ہے۔ وہ اپنی وال پر لکھتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد احتساب ایک صوبائی معاملہ ہے، ان کی اس پوسٹ کے رد عمل میں بھی ان ہی کی وال پر نوے فیصد سے زیادہ لوگوں نے ان پر کڑی تنقید کی ہے جن میں سے ایک نے لکھا ہے۔ میتلو، یو ٹو؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ عملی طور پر سوائے سراج درانی صاحب کے گھر کے باہر گیٹ پر دھرنا دے کر بیٹھنے والے سندھ حکومت کے وزیروں کے احتجاج کے پورے سندھ میں کہیں بھی کسی جگہ بھی ایک چھوٹا سا بھی احتجاج نہیں ہوا ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر 95 فیصد لوگوں نے اس گرفتاری پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی مارکیٹ میں چل رہا ہے کہ احتساب ڈرامی بازی والا، ڈیل والا، ڈھیل والا نہیں مگر حقیقی احتساب ہونا چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما کی گرفتاری پر لوگ غصہ کرنے کے بجائے، احتجاج کرنے کے بجائے خوش ہو رہے ہیں؟ اور ایک عوامی پارٹی کی یہ حالت کیوں ہوئی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ گذشتہ 12 سال سے پیپلز پارٹی سندھ پر حکمران ہے اور سندھ میں جتنی کرپشن ہوئی ہے اس سے سندھ کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ سندھ ایک سو سال پیچھے چلا گیا ہے۔ میرے دوست مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تم پیپلز پارٹی کے اتنے مخالف کیوں ہو؟ میں کہتا ہوں میں پیپلز پارٹی کا نہیں اس کے کرتوتوں کا مخالف ہوں۔ سندھ کا خون چوس لیا ہے ان لوگوں نے۔ تعلیم، صحت، شہر، گاؤں، کچھ نہیں چھوڑا، پینے کے پانی تک کا اربوں روپے کا بجٹ کھا گئے۔ پورا سندھ بیمار ہو گیا ہے۔ جس کو دیکھو کوئی ن کوئی بیماری نکلے گی۔

یہ جو پریس کانفرنسز میں بتاتے ہیں، اشتہاروں میں دکھاتے ہیں، سندھ اس سے بالکل مختلف ہے، جو دیکھنا چاہے میں اس کو دعوت دیتا ہو کہ آؤ اور اصلی، تباھ برباد سندھ آکر دیکھو۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ پھر پیپلز پارٹی کو ووٹ کیوں ملتے ہیں؟ اس کا میں ہمیشہ سادہ جواب دیتا ہوں۔ سندھ میں الیکشن، پیسا، پولیس، کئی سالوں سے پاور میں ہونا، چھوٹے بڑے وڈیرے کا ساتھ اور ملک کے اصل نظر نہ آنے والی قوتوں کی آشیرواد سے جیتا جاتا ہے۔

سندھ میں عوام کے اس تصویر پر بھی کافی تبصرے چل رہے ہیں جس میں پیپلز پارٹی کے سب وزیر مشیر، رہنما آغا سراج درانی کے گھر کے باھر دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے علاقوں کے ان داتا، پولیس کی مدد سے اپنے اپنے علاقوں میں غیر قانونی بادشاہتیں قائم کرنے والے، غریبوں کی ماؤں، بیٹیوں، بہنوں کی قسمتوں کے فیصلے کرنے والے یہ لوگ رینجرز کے ایک سپاہی کے سامنے بے بس بیٹھے تھے۔ ان کی اس تصویر پر ایک سماجی بلاگر مظہر ابڑو نے لکھا ہے کہ گذشتہ گیارہ سال میں پیپلز پارٹی کے ان رہنماؤں، ایم پی ایز، ایم این ایز نے سندھ کے کسی حق کے لئے ایسا کوئی ایک دھرنا دیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).