وہ ریاست مدینہ اور یہ ریاست مدینہ


تاریخ پر طویل بحث کی بجائے چلیں ہم ریاستِ مدینہ کا ذکر صرف حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت تک محدود کرتے ہیں جو انسانی تاریخ کی بہترین انتظامی سیاسی اور فوجی اصلاحات کا ایک زریّں دور ہے، لیکن سب سے پہلے ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ مثالی ریاست تب وجود میں آئی جب ریاست کے سربراہ نے اپنے آپ کو وی آئی پی سٹیٹس اور پروٹوکول سے الگ کرکے عوام میں شامل کر لیا اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ انتظامی گرفت پر اثر پڑا بلکہ عام لوگوں کے مسائل سے شناسائی اور قریبی رابطے نے خلیفہ کے منصب کو کہیں زیادہ اعتماد اور وقار بخشا جس کی وجہ سے حضرت عمرؓ انتہائی سخت لیکن شاندار فیصلے کرنے کی پوزیشن میں آئے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ عوام (رعایا) کو اپنے حاکم کے اخلاص، ایمانداری، تدبّر اور تعمیر وترّقی کے وژن پر ذرہ برابر شبہ بھی نہیں رہا تھا۔

یہ حضرت عمرؓ ہی تھے جنھوں نے دنیا بھر میں رائج بادشاہی جاہ و جلال اور دولت و حشمت کے تصّور کو عملی طور پر پہلی بار متضاد سمت میں موڑ دیا اب یہ منصب ہیرے جواہرات سے لدے پھندے لباسِ فاخرہ سے نکل کر پیوند لگے فقیرانہ خرقے میں ڈھل گیا تھا، لیکن احساسِ ذمداری اور کارکردگی ایسی کہ دنیا ڈیڑھ ہزار سال گزرنے کے باوجود بھی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جب ہم ریاستِ مدینہ کی مثالی کامیابی کے وجوہات کی تلاش میں نکلتے ہیں تو دو بہترین کتابیں ہماری مدد کو آن پہنچتی ہیں جس میں ایک مصر کے معروف دانشور اور صحافی محمد حسین ہیکل (جو مشہور مصری اخبار ”السیاسہ“ کے ایڈیٹر بھی رہے ) کی کتاب ”الفاروق عمر“ جبکہ دوسری کتاب علامہ شبلی نعمانی کی ”الفاروق“ ہے ان کتابوں کا مطالعہ ہمیں فوراً سمجھا دیتا ہے کہ حضرت عمرؓکی خیرہ کن کامیابی کا راز دو باتوں میں پنہاں تھا ایک یہ کہ اُنھوں نے اپنی ذات پر انسانی خواہشات کو قطعًا حاوی نہیں ہونے دیا اور دوم وہ شخصیت شناس بہت تھے، اِنھیں معلوم ہوتا کہ کس کام (منصب ) کے لئے کون سا شخص مناسب ہے گویا رائٹ مین فار رائٹ جاب۔

چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں!

عبداللہ بن ربیعہ الباہلی حد درجہ منصف مزاج اور مالی معاملات کی سمجھ رکھنے والے آدمی تھے سو اُنھیں قاضی اور خزانچی کا منصب سونپا۔ حضرت امیر معاویہؓ، عمرُو بن العاص اور مغیرہ بن شعبہ کی انتظامی صلاحیت بہت تھی سو انھیں مختلف صوبے سونپ دیے لیکن سب پر انتظامی قابو بھی رکھا۔

فنِ حرب میں عمرُو بن معدی کرب اور طلیحہ بن خویلد بہت ممتاز تھے لیکن تدبّر میں قدرے کمزور دونوں کو نعمان بن مقرن کی ماتحتی میں عراق کی فتوحات پر مامور کیا تو نعمان کو خط بھی لکھا کہ دونوں کو فوجی کمانڈ سونپنے سے گریز کیا جائے۔

عبداللہ بن ارقمؓ نے ایک بار حضور کریم ؓ کی طرف سے ایک خط کا جواب لکھا تو حضور کریمؓ نے بہت تعریف کی حضرت عمرؓ بھی پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ قابلیت سے وہ بھی متاثر ہوئے زمانے بعد حضرت عمر ؓ خلیفہ بنے تو عبداللہ بن ارقمؓ کو بلایا اور میر منشی (چیف سیکرٹری ) مقرّر کیا۔

اس کے علاوہ مجلس مشاورت کو بہت اہمیت دی ریاست میں کوئی انتظام کرتے تو دوسروں کی زیادہ سنتے فیصلہ خود کرنے کی بجائے کثرتِ رائے سے کرتے، شوریٰ میں انصار اور مہاجرین دونوں شامل تھے، انصار کے دونوں قبیلوں اوس اور خزرج کو برابر نمائندگی حاصل تھی۔

رعایا کو شکایت پیش کرنے میں کوئی مشکل نہ تھی نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور سب کو سنتے اور فورًا حکم جاری کرتے۔
عرب رؤساء سے بات کرنے سے پہلے لوگ کہتے کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان اس پر سختی کے ساتھ پابندی لگائی، فرمایا اس سے غلامی کی بُو آتی ہے۔

18 ہجری میں لاوارث بچوں اور یتیموں کے لئے سو درہم سالانہ وظیفہ مقرّر کیا۔ احساسِ ذمہ داری ایسی کہ حرم میں خطبے کے دوران شام سے آئے عیسائی نے دوبار محصول لینے کی شکایت کی لیکن خطبہ جاری رہا چند دن بعد عیسائی دوبارہ حاضر ہوا اور شکایت دہرائی تو فرمایا آپ کی شکایت کے بارے میں اسی دن ہی گورنر کو لکھ دیا ہے اپنے ملک لوٹ جاؤ تمھارا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔

بائیس لاکھ مربع میل پر پھیلے ریاست کے ہر ضلع میں پرچہ نویس مقرّر تھے۔ جو عوام کو درپیش مسائل فورًا خلیفہ کو بھیج دیتے اور گورنر کی شامت آجاتی۔
مالِ غنیمت سے بیٹی حضرت حفصہ ( زوجہ مطہرہ) نے اپنا حصہّ مانگا تو ڈانٹ کر کہا تمھارا حصّہ تمھارے باپ کے مال میں ہے مالِ غنیمت میں نہیں۔

انصاف ایسا کہ اپنے بیٹے کو بھی جرم پر 80 کوڑے مارے اور وہ جان سے گئے، بیتُ المال اور خزانے کے ایسے امین اور منتظم کہ تاریخ محوِ حیرت ہے۔ انسان تو دور کی بات ہے جانور تک بھوکا نہیں رہا۔ عمران خان ریاستِ مدینہ سے بہت متاثر ہیں اور ہونا بھی چاہیے ان کی شدید خواہش ہے کہ اپنے ملک کو بھی ریاستِ مدینہ کی روایت پر چلائیں۔ لیکن یاد رہے کہ ریاست مدینہ بنانے کے لئے جس قربانی وژن انصاف اور صلہ رحمی کی ضرورت ہوتی ہے اس سے آپ بد قسمتی سے ابھی کوسوں دور ہیں۔

جناب وزیرِاعظم صاحب حضرت عمر ؓ جیسا بننا یقینًا بہت مشکل ہے لیکن ان کی تقلید کرنا اتنا مشکل بھی تو نہیں آپ آغاز تو کریں پہلے اپنے آپ کو وی آئی پی سٹیٹس اور پروٹوکول سے الگ کریں اور عوام جیسے بن جائیں آپ کی آئیڈیالوجی میں اخلاص شامل رہا تو اللہ تعالٰی مدد کے دروازے کھولنے میں دیر نہیں لگائے گا۔ لیکن وہی بات کہ بہتان طرازیوں اور ڈرامہ بازیوں سے گریزاور یکسوئی کے ساتھ کام اور اخلاص ہی درکار ہوتا ہے ورنہ پھر وہی ریاست مدینہ بنے گی جو اس وقت ہمارے سامنے ہے اور جس کے خالق بھی آپ ہی ہیں۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).