دلبیر سنگھ کی شراب اور تابوت


انگلینڈ بالخصوص لندن میں برفباری زیادہ نہیں ہوتی لیکن بعض سردیوں کی راتیں ایسی ہوتی ہیں جب بہت برف پڑتی ہے، یوں بھی انگلینڈ کا موسم بے اعتبار اور ہرجائی سا ہے ایسی ہی ایک رات کو بہت تیز برفباری تھی جو وقفے وقفے سے ساری رات ہی جاری رہی۔ مجھے ٹھنڈ اور برفباری یوں تو بہت پسند ہے لیکن جانے کیوں اس صبح جب میں سوکر اٹھا تو باہر ہر چیز کو سفید چادر اوڑھے دیکھ کر باہر نِکلنے کا دِل نہ کِیا یا یوں کہوں کہ شاید ہِمت نہ پڑی لیکن آج اگر میں چھٹی کر بھی لیتا تو بھی ایک گھریلو کام کے سِلسلے میں باہر تو جانا ہی تھا۔ چار و ناچار اٹھا اور تیار ہوکر باہر نِکلا۔

وائف ایک دو ہفتوں سے پاکستان گئی ہوئی تھی اور گھر کے گارڈن میں ایک دو ضروری کام کروانے والے تھے جِس کے لئے مجھے کہیں نہ کہیں سے دو تین دیہاڑی دار مزدوروں کی ضرورت پڑنے والی تھی۔ باہر نِکلا تو برفیلی سرد ہوا نے بدن میں جھرجھری سی پیدا کی میں شش و پنج میں تھا کہ اِتنی سردی میں بھلا کہاں کوئی مزدور کام کرنے کو مِلے گا بھی یا نہیں۔ بہرحال الفورڈ ہائی سٹریٹ پر بڑے گردوارے کے سامنے اکثر پاکستانی اور اِنڈین مزدور، راج مستری وغیرہ اپنے اپنے بیلچے، گینتیاں اور پھاؤڑے اٹھائے اپنے حِصے کی مزدوری ڈھونڈنے وہاں صبح سویرے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ سردی گرمی کیا معنی رکھتی ہے کہ ہیں بہت تلخ بندہ مزدور کے اوقات۔

خیر میں وہاں پہنچا تو دَس بارہ افراد جِن میں چند پاکستانی، چند انڈین پنجابی سردار اور دو تین ایسٹ یورپئین ( رومانیہ وغیرہ ) کے افراد بیٹھے تھے ابھی تک رومانیہ کے شہریوں کو کام کی فی الفور اجازت نہیں ہوتی تھی۔ وہاں پہنچ کر مجھے دلبیر سِنگھ یاد آگیا۔ دو سال پہلے تک دلبیر سنگھ بھی کرتارپور انڈین پنجاب سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ ہمیشہ یہیں اپنے پرانے لباس میں بیٹھا ہوتا تھا اس وقت اس کی عمر ستر برس کے آس پاس رہی ہوگی۔ میرا تب کرنسی ایکسچینج اور رقوم کی ترسیل کا دھندا ہوا کرتا تھا۔

دلبیر سنگھ کو میں پچھلے تین چار سال سے دیکھ رہا تھا کہ وہ ہر آٹھ دَس روز بعد اپنے ساتھ اپنا ایک رشتے دار لے کر آتا اور انڈیا میں موجود اپنے بیوی بچوں کو اس کے نام سے پیسہ بھجواتا کیونکہ وہ اپنے نام سے پیسہ بھی نہیں بھیج سکتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کوئی دس بارہ سالوں سے یہیں لندن میں تھا اس سے پہلے چند سال فرانس اور اس سے بھی چند سال پہلے کینیڈا میں رِہ کر یہاں آیا تھا۔ ابھی تک اس کی امیگریشن کے کاغذات نہیں بنے تھے اور بننے کے چانس بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔

وہ ہمیشہ کہتا کہ اب وہ اگلے مہینے واپس انڈیا چلا جائے گا اس نے کافی پیسہ کمالِیا تھا۔ لیکن اس کا وہ اگلا مہینہ کبھی نہیں آیا۔ اس کے بچوں کے پاس اچھی گاڑیاں، اچھا گھر، بیوی کے پاس سونا، بینک بیلینس سب کچھ تھا لیکن یہاں دلبیر سنگھ شاید ایک وقت کا کھانا بھی کم کھاتا تھا کہ زیادہ پیسے اپنے گھر بھیج سکے۔ ایک دفعہ اس نے اپنے بڑے بیٹے کو بھی یہاں بلوایا لیکن وہ دو ہفتوں میں ہی بھاگ نِکلا کہ ”باپو یہاں اتنی محنت کون کرے“

ایک صبح میں اپنے کام پر گیا تو پتہ چلا کہ رات کو دلبیر سنگھ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ چل بسا اب ساتھی مزدورں نے اور گردوارے نے بڑی کوششوں اور چندہ جمع کرکے اس کی ڈیڈ باڈی واپس بھجوانی تھی۔ دلبیر سنگھ کبھی واپس زندہ اپنے بال بچوں کے پاس نہ جاسکا۔ دلبیر سنگھ یہاں لندن میں شوقین ہونے کے باوجود کبھی اچھی وہسکی نہیں لیتا تھا کہ پیسے خرچ ہوں گے۔ مجھے وہ بوڑھا سردار اچھا لگتا تھا تو میں ہی ہفتے دس میں اس کو بہترین سنگل مالٹ سکاچ خرید کر دیتا تھا کہ وہ کم از کم سکاچ کے لئے ترسے نہیں۔ میں اس کے لئے نصیحت کے یا وہسکی کے سِوا کچھ نہیں کرسکتا تھا۔

یہاں یورپ میں ایک اِل لیگل مزدور بھی چار پانچ لاکھ پاکستانی روپے کما ہی لیتا ہے اِسی لئے بہت سارے پاکستانی، ہندوستانی اور بنگالی بلکہ دیگر ممالک سے بھی لوگ یہاں کیسے بھی پہنچنا چاہتے ہیں لیکن میری درخواست ہے کہ ایسا سوچنا بھی مَت کہ یہاں آبھی گئے تو واپس کبھی نہیں جاسکو گے، پیسہ کمانے کا نشہ اور پھر گھر والوں کی بے جا فرمائشیں آپ کو یہاں سے تابوت میں واپس بھیجیں گی۔ قریب قریب یہ ناممکن ہے کہ آپ کے لیگل پیپرز کبھی بنیں گے۔ اِتنی محنت ہی کرنی ہے تو پاکستان میں یا اپنے ممالک میں کیوں نہیں؟ ایجینٹوں کو پیسے تھما نے اور سنہرے خواب بننے سے پہلے یہ باتیں بھی ذہن میں رکھئیے گا ضرور۔

پسِ تحریر : یہ تو ایک بندے کا سچا واقعہ تھا لیکن اگلے دِن خبر سنی کہ یونان پہنچنے کی تگ و دو میں ایک کشتی بحیرہ روم ( Mediterranean Sea ) میں ڈوب گئی اور پچاس بندے بشمول پاکستانی، سری لنکن، انڈین اور بنگالی ڈوب کر مرگئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).