مادری زبانوں کا عالمی دن اور ہماری ذمہ داریاں


پوری دنیا میں 21 فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 1999 میں یونیسکو کی طرف سے میں اس دن کو باقاعدہ منانے کا اعلان ہوا اور 2008 مین یو این او میں باقاعدہ ایک قرارداد کے ذریعے اس سال کو عالمی زبانوں کا سال قرار دیا گیا۔ 21 فروری 2000 سے اس دن کو باقاعدہ منایا جارہا ہے۔ اس سال بھی اسی مناسبت سے آج یعنی 21 فروری کو پوری دنیا میں یہ دن منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد تمام زبانوں کو فروغ دینا اور ثقافتی تغیر اور ملٹی لنگویلیزم کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

پاکستان عموما اور چترال خصوصا زبانوں کے لحاظ سے ذرخیز علاقہ ہے۔ پاکستان میں پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، اردو، سرائیکی اور ہندکو کے علاوہ کئی اور زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔ اسی طرح میرے اپنے آبائی علاقے، چترال، میں اس وقت 14 زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں، جن میں کھوار، پشتو اور فارسی سرفہرست ہیں۔

مادری زبان کی اہمیت اور افادیت سے ہر ایک ذی شعور انسان واقف ہے لیکن شعوری یا لاشعوری طور پر ہم ان مادری زبانوں کو وہ اہمیت نہیں دے پاتے ہیں جن کے یہ مستحق ہیں۔ ان وجوہات کو بیان کرنے سے پہلے تھوڑا زبان اور زبان پر سیاست کی تھوڑی تفصیل دینا ضروری سمجھتا ہوں۔

دوسرے ممالک کے برعکس برصغیر ایک کثیر اللسانی علاقہ ہے۔ یہاں کئی زبانیں بولی جاتی ہے۔ آزادی کے بعد ہمارے پڑوسی ملک نے کسی بھی زبان کو قومی زبان قرار دینے کی بجائے علاقائی زبانوں کی اہمیت کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ بنیادی تعلیم انہی زبانوں میں دینے کو مینڈیٹری قرار دیا۔ لیکن ہمارے یہاں، بدقسمتی سے نوابوں، سرمایہ داروں، ایلیٹ کلاس اور اقلیت (اردو بولنے والوں کی تعداد 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہے ) مگر طاقتور کی زبان اردو کو ایک پھر ہم پر مسلط کیا گیا جو کہ ملک کے دولخت ہونے کا بھی موجب بنا۔

اردو یا انگریزی ملک کے % 90 لوگوں کے لئے ایک alien زبان ہے۔ نہ پنجابی اس کو صحیح طرح سمجھتے ہیں، نہ بلوچی، نہ سندھی، پٹھان تو شروع سے ہی بدنام ہیں۔ کوئی زبان اچھی یا بری نہیں ہوتی ہے۔ لیکن ہر زبان کے ساتھ کچھ اچھایاں یا برایاں جڑی ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اچھائی یا برائی بھی constant نہیں بلکہ variable ہوتی ہے۔ ایک کے لئے اچھی کسی اور کے لئے بری۔

جب بھی زبان اور تعلیم کی بات ہوتی ہے تو اردو اور انگریزی بحث کا حصہ بنتے ہیں۔ تعلیم کی بات ہو تو مادری زبان کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے۔ چونکہ آج مادری زبانوں کا عالمی دن ہے اور اردو یا انگریزی کسی کی مادری زبانیں ہے تو ان کو ملاکر کچھ کہنے کی جسارت کرتا ہوں۔

اردو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے سے ہم اپنی مادری زبانوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ پنجابی اپنے گھر میں پنجابی بولنے پر شرم محسوس کرتا ہے۔ کچھ یہی حال سب زبانوں کا ہے۔

پریکٹکل لائف میں آنے سے پہلے میرا خیال یہی تھا کہ کھوار (میری مادری زبان) ایک نچلے درجے کی زبان ہے۔ مجھے میرے زمانہ طالب علمی میں کبھی یہ نہیں پڑھایا گیا تھا کہ یہاں بابا سیار، امیر میر، مولا نگاہ، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، ممتاز حسین، افضل اللہ افضل، اور عرفان صاحب جیسے ہیرے موجود ہیں جو اس زبان کے فردوسی، شیخ سعدی، مولانا رومی، میر تقی میر، اقبال، ساغر صدیقی، الطاف حسین حالی وغیرہ ہیں۔ اگر میری بنیادی تعلیم میری مادری زبان میں ہوتی اور اس کے بارے میں میری رہنمائی عمر کے ابتدائی دور میں ہوتی تو میرے خیالات یکسر مختلف ہوتے۔ جب میں نے کھوار ادب اور اس کے لکھاریوں کا مطالعہ کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ میری مادری زبان کتنی زرخیز ہے۔

اگلی بات کا تعلق بنیادی تعلیم اور سائنسی علوم کے ساتھ ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے مطابق بنیادی اور سائنسی تعلیم مادری زبان میں دینی چاہیے۔ ماہرین تعلیم کی رائے بھی یہی ہے کہ پرائمری تعلیم مادری زبان میں ہی ہونی چاہیے کیونکہ جو بات اس عمر میں سکھائی جاتی ہے وہ طالب علم کو ازبر ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد فیصلہ کرنا ہوگا کہ آگے کی تعلیم کے لئے کس زبان کا سہارا لینا چاہیے۔

تعلیمی مواد اور میڈئیم آف ایجوکیشن میں فرق ہوتا ہے۔ بعض حضرات اول الذکر کو موخر الذکر سے کنفیوز کر دیتے ہیں۔ جہاں تک تعلیمی مواد کا تعلق ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ موجودہ دور میں % 80 فیصد ریسرچ اور علمی مواد انگریزی میں ہے۔ جہان تک میڈئیم آف انسٹرکشن یا ایجوکیشن کی بات ہے تو پوری دنیا کے علمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سائنسی علوم کو سمجھانے کے لئے مادری زبان سب سے موزون ترین زبان ہے۔ اس میں بھی کچھ حضرات اس مغالطے کا شکار ہیں کہ اردو ہماری مادری زبان ہے۔ یہاں میں ان کی تصیح کرتا چلوں کہ اردو ہم پر مسلط کی گئی ’ہماری قومی زبان‘ تو ہے لیکن ’ہماری مادری زبان‘ نہیں۔

مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے ہم سب کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ ہماری اور ہماری ثقافت کی بقا مادری زبانوں کی سرپرستی میں ہے۔ ہمیں اس مغالطے سے نکلنا چاہیے کہ ہم کسی ’قومی زبان‘ کی آڑ میں یا ’کافروں کی زبان کی بغض‘ میں ترقی کر سکیں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو ’مولانا ضیاع الحق‘ کے دور میں قومی زبان کی آڑ میں جو بے تکی باتیں اور ’اعمال صالح‘ کیے گئے تھے تو وہ نتیجہ خیز ہوتے لیکن ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس عمل کا نتیجہ بھیانک نکلا۔

ہمیں غلط فہمی اور احساس کمتری میں رہ کر انگریزی یا اردو کو اپنا کر اپنی مادری زبانوں کے ساتھ نا انصافی نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو یہ مادری زبانوں (پنجابی، پشتو، بلوچی، سندھی، سرائیکی، ہندکو، کھوار، وغیرہ) کے ساتھ ظلم عظیم ہو گا۔ لیکن، بدقسمتی سے، احساس کمتری کی وجہ سے کہیں نہ کہیں ہم انگریزی اور اردو کو اپنآ کر اس نا انصافی اور ظلم عظیم میں ہم سب اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی مقامی زبانوں کو وہ مقام دینا ہی بھول جائیں جن کا تقاضا وہ ہم سے کرتی ہیں اور نتیجتا ہم اپنی ثقافت اور رسم و رواج کو ہی بھول جائیں۔

نوٹ: اردو یا انگریزی بحیثیت زبان اچھی یا بری نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ہماری مادری زبانیں نہیں ہیں۔ موجودہ دور میں % 90 پاکستانیوں کے لئے اردو کی حیثیت وہی ہے جو انگریزی کی ہے۔ لیکن موجودہ دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انگریزی سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اردو کو اپنانا کہیں سے بھی دانشمندی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).