مادری زبانوں کے ادبی میلے کہ جب مصنفین اپنی کتابیں گھر بھول آئے


بین الاقوامی مادری زبانوں کا دن ہر سال 21 فروری کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن 1952 کے 21 فروری کی وجہ سے منتخب گیا ہے جس دن ڈھاکہ یونیورسٹی، جگن ناتھ یونیورسٹی اور ڈھاکہ میڈیکل کالج کے طلبہ ملک میں اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان بنانے کے لیے احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے گولی چلا کر انہیں ہلاک کر دیا اور جس کے نتیجے میں شہید مینار بنا جس نے مینار پاکستان میں دراڑ ڈالی اور بنگلہ دیش بن گیا۔ ہمیشہ سے ہی میلے ہماری ثقافت کا وہ رنگ رہے ہیں جن کے انعقاد سے معاشرے میں ہر سو خوشبو پھیلتی رہی ہے۔

میلے چاہے ہمارے روایتی کھیل سے سجے ہوں یا کتب بینی سے یا پھر راگ رنگ سے ان کے اثرات ہمیشہ معاشرے پر مثبت ہی نظر آئے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ان میلوں کے طور طریقے اور اغراض و مقاصد تبدیل ہوتے رہے ہیں اور اب یہ میلے کروانے والے پر منحصر ہے کہ ان کے میلے کا ایجنڈا کیا ہے۔ آج کل روایتی کھیلوں اور راگ رنگ کی جگہ ادبی، صوفی اور لاہوتی میلوں کا انعقاد زور و شور سے ہو رہا ہے۔ میلوں کا انعقاد، فنڈنگ اور پبلسٹی بھی ایک فن ہے جو ہر کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ان میلوں کے لیے فنڈنگ دینے میں چاروں صوبوں سے آگے ہے۔ ایک طرف حکومت سندھ کی اس کاوش کی کئی ادبے حلقے تعریف کرتے نہیں تھکتے تو دوسری طرف کچھ ادبی اور دانشور حلقے لاہوتی میلوں اور سندھ فیسٹیول سمیت سندھ حکومت کے فنڈنگ سے ہونے والے میلوں پر سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ یہ سرکاری سرپرستی والے میلے کارپوریٹ کلچر کی نذر ہو چکے ہیں جن کو صرف شغل میلہ ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان میلوں سے ثقافت کی خدمت کم اور فنڈ دینے اور لینے والوں کی خدمت زیادہ ہو رہی ہے۔

اسلام آباد لوک ورثہ میں 16,17 فروری کو ہونے والے مادری زبانوں کے ادبی میلے میں افسانے، شاعری اور ناول کی نشتیں تو مفید رہی مگر کافی لوگ مادری زبانوں کے حوالے سے غیر مطمئن نظر آئے کہ اس میلے میں معدوم ہونے مادری زبانوں پر توجہ اور وقت دینے کی زیادہ ضرورت تھی تاکہ ان معدوم ہونے والے ماں بولیوں کی تحقیق کر کے ان کو بچایا جا سکے مگر اس میلے کا زیادہ تر وقت شغل میلے کی نذر ہو گیا جس کی وجہ سے یہ مادری زبانوں کا ادبی میلہ وہ اہمیت حاصل نہ کر سکا۔

اس میلے کے حوالے سے لوگوں کا کہنا تھا کہ سندھی، بلوچی اور سرائیکی زبانوں میں تجربہ کار لوگوں کا انتخاب کر کے اس میلے کی اہمیت کو بڑھایا جا سکتا تھا۔ انڈس کلچر فورم کا یہ مادری زبانوں کا میلہ حکومت سندھ اور دیگر اداروں کی فنڈنگ سے ہر سال مادری زبانوں کے عالمی دن سے منسلک کیا جاتا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے جس میں ملک بھر سے ادیبوں اور دانشوروں کو مدعو کر کے ادب اور زبانوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ ہر سال اس میلے پر تنقیدی جائزے کے ساتھ تعریفی کلمات بھی کہے جاتے ہیں مگر مسلسل ان مادری زبانوں کے میلے میں لسانیت کے ماہروں کی کمی اور مادری زبانوں پر کم توجہ دینے اور فنڈنگ پر کئی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں جس پر میلے کے سر پرست اعلٰی، انڈس کلچرل فورم کی چیئرمین نیاز ندیم اسے ایک خواہ مخواہ کا پروپیگنڈا کہہ کر رد کررے ہیں۔

جب نیاز ندیم سے میلے کی فنڈنگ، آڈٹ اور اس میلے میں مادری زبانوں اور لسانیت کے ماہروں کو کم وقت اور اہمیت دینے، اور مادری زبانوں کے بہتر اور اہل لوگوں کو نہ بلانے کے حوالے سے میں نے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ فنڈنگ اور آڈٹ کے حوالے سے وہ صرف اپنے ڈونر کو جواب دہ ہیں اور ان کی تنظیم انڈس کلچر فورم کے پاس اپنا بینک اکاؤنٹ نہیں ہے اس لیے ان پر آڈٹ کروانا بنتا ہی نہیں ہے اور جہاں تک معدوم ہونے والی ماں بولیوں اور لسانیت کے ماہروں کو کم اہمیت دینے کی بات ہے تو ان کے خیال میں یہ میلہ صرف مادری زبانوں کا میلہ نہیں ہے اگر ایسا ہی تھا تو اس میلے کو ثقافتی میلے کا نام دیا جاتا مادری زبانوں کے ادبی میلے کے بجائے۔

ان کے خیال میں آنے والے سارے لوگ ماہر اور اپنی اہلیت پر بلائے گئے ہیں۔ اس میلے میں موجود معروف لکھاری، شاعر، ادیب اور مترجم احمد سلیم سے جب اس میلے کے حوالے سے نشت ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کو تو کہا گیا تھا کہ اس میلے میں آنے والے ادیب ”مادری زبانوں کے لوگ بیانے میں“ اپنی اپنی کتاب کے ساتھ آئیں گے اور اپنی کتاب پر روشنی ڈالیں گے مگر سوائے ان کے کسی کے پاس کوئی کتاب تھی ہی نہیں جس پر روشنی ڈالی جاتی وہ حیران تھے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں کہ کرنا کیا ہے۔

جناب احمد سلیم کے مطابق کہ سوائے سندھی زبان کی کتابوں کے اسٹال کے کسی اور مادری زبان کا کوئی اسٹال موجود نہیں ان کہ مطابق اس میلے میں زیادہ سے زیادہ اہمیت مادری زبانوں کو دی جائے اور ساتھ ساتھ پبلیکیشن اورتمام مادری زبانوں کی کتابوں کے اسٹال بھی لگائے جاتے تاکہ لوگ کتاب خرید کر اپنے مادری زبانوں کو سمجھ سکیں۔ مادری زبانوں کے اس میلے میں لوگوں کی کمی کی وجہ سعودی شہزادے کی اسلام آباد آمد بتائی جا رہی ہے دوسری طرف ایک وقت میں دو دو مختلف نشتوں کی وجہ سے ہال کی کرسیاں خالی نظر آئیں مگر کچھ لوگوں کو خیال ہے کہ ماہر اسپیکرز نہ ہونے کی وجہ سے لوگ کم نظر آئے۔

مادری زبانوں کے اس میلے میں صرف ماں بولیوں کی معدومی سے بحالی تک ایک گھنٹہ کی نشت کا انعقاد کیا گیا جس میں کچھ حوالے، کچھ باتیں معدومی کی تو ہو گئیں مگر بحالی کا وقت نظامت کے نذر ہو گیا۔ اس میلے میں ماں بولیوں پر توجہ کم رہی اور عنوانوں اور ڈیڈیکیشن پر زیادہ۔ اس طرح کے میلوں کا انعقاد بغیر پیسوں کے میل ملاقاتوں کے لیے تو بہت مفید ہو سکتا ہے مگر ماں بولیوں کی معدومی سے بحالی کے لیے شاید ناکافی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).