ایک تڑپتا ہوا باپ اور پاکستانی قانون !


بابر ایک خوبصورت ہنڈ سم سا لڑکا تھا جو گاؤں سے روزگار کے سلسلے میں اسلام آباد آیا اس کی جاب ایسی جگہ پہ تھی جہاں سیاحوں کا آنا جانا تھا اسی دوران اس کی ملاقات ایک (ت) نامی لڑکی سے ہوگئی دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہوگئی بابر کے گھر والے گاؤں میں رہتے تھے جبکہ (ت) کے شہر میں رہتے تھے دونوں خاندانوں کی سوچ اور رہن سہن میں کافی فرق تھا لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے دور رہنے کا تصور ہی نہیں کر سکتے تھے دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا (ت) کی ماں اس شادی کے خلاف تھیں جبکہ بابر کے گھر والے اپنے بیٹے کی خوشی کی خاطر مان گئے تھے جبکہ (ت) نے ماں کی مرضی کے خلاف جاکے یہ شادی کر لی اور یوں دونوں اسلام آباد میں رہنے لگے بابر کے گھر والوں نے تو (ت) کو آنکھوں کا تارا بنا لیا کہ یہ اپنے گھر والے چھوڑ کے آئی ہے اور ہماری ہی بچی ہے گاؤں کی شادیوں میں جاتے تو بڑے فخر سے اپنی بہو کے نخرے اٹھاتے اور لوگوں سے اس کا تعارف کراتے لوگ نھی اس کی خوبصورتی کی تعریفیں کرتے اور دونوں کے پیار پہ رشک کرتے۔

کچھ ہی عرصے کے بعد (ت) نے اپنی ماں کو راضی کر لیا اور دونوں ہی ان کے گھر جاکے رہتے اسی دوران اللہ نے ایک چاند سی بیٹی دی جس کا نام انھوں نے (پریشے ) رکھا اور پیار سے پری کہتے بابر کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی کہ ان کی محبت کی شادی سے پہلی اولاد تھی اس کی پری میں جان بستی تھی آئے دن اس کے لئے کپڑے کھلونے دنیا جہاں کی چیزیں لے کر آتا نجانے کس کی نظر لگ گئی یا کسی کی سازش کا شکار ہوگئے کہ (ت) پری کو لے کر میکے جاکے بیٹھ گئی جب جھگڑے بڑھ گئے تو (ت) نے خلح کا نوٹس بھجوا دیا بابر کے تو جیسے پاؤں تلے سے زمین ہی نکل گئی کیونکہ وہ نہ تو (ت) کے بغیر رہ سکتا تھا اور نہ ہی پری کے بغیر لیکن (ت) کی بھی ضد تھی کہ بیٹی وہ لے کر رہے گی آخر کا پاکستان کی عدالت نے بابر کو پری سے جدا کر دیا بابر نے کئی بار خودکشی کرنے کی بھی کوششش کی لیکن ان کی ماں نے انھیں سنبھال لیا۔

اب بابر صبح شام اپنی بیٹی کو یاد کرتا ہے جو اس کے جگر کا ٹکڑا ہے وہ کہتا ہے اس کو کون پالتا ہوگا کیسے سکول جاتی ہوگی وہ اس کی تصویر کو موبائل پہ لگا کے آج بھی دو سال کی بچی سمجھ کر باتیں کرتا ہے چومتا ہے لوگوں کے بچوں کے ساتھ اس کی شکل میچ کرتا ہے کہ فلاں میری پری جیسا ہے ہر بچے میں وہ پری ڈھونڈتا ہے جبکہ اب پری سات سال کی ہوگی بدقسمتی سے بابر پاکستان کے قانون کے ہاتھوں برباد ہوگیا ہے جبکہ یورپ میں یہ قانون ہے کہ بچہ چاہے بوائے فرینڈ سے ہو یا شوہر سے ہو اگر میاں بیوی کے درمیان سپریشن ہوگئی ہو تو اٹھارہ سال تک ماں اس بچے کو اس کے باپ سے ملنے کو نہیں روک سکتی یہاں تک کہ ملک سے باہر بھی جانا ہو تو کورٹ سے اجازت لے کر ہی جاتی ہے میرا ہمیشہ سے یہی رونا ہے کہ پاکستانی قانون غریب کے ساتھ ظلم کرتا ہے جبکہ امیر کا رکھوالا ہے کیا بابر کی جگہ کوئی امیر سیاست دان ہوتا تو قانون یہ کرتا آج مجھے یہ سب لکھتے ہوئے اپنے ابو یاد آرہے ہیں کہ ایک باپ بیٹی کے لئے کیا ہوتا یہ تو بیٹی ہی جان سکتی ہے باپ بیٹی کا رول ماڈل ہوتا ہے۔ میں یہ تو نہیں جانتی کہ ان دونوں کو جدا کرنے کی کس کی سازش تھی لیکن ایک بیٹی کو ایک پیار کرنے والے باپ سے الگ ہمارے قانون نے کیا ہے۔ کیا بابر کبھی پری کو دیکھ پائے گا کیا ہمارا قانون کبھی عام آدمی کی آواز بھی سنے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).