ریاست ہوگی ماں کے جیسی؟


بانی پاکستان اور تحریک آزادی کے ہزاروں لاکھوں کارکنوں کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے لئے ایک ایسی الگ ریاست حاصل کرنا تھا کہ جہاں کے باسی اپنی امنگوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ ہر شہری اپنے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق سے بھی مستفید ہو سکے۔ ہم ایک ایسا خطہؑ ارضی تو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ جہاں حکومت تو ہمارے لوگ ہی کرتے ہیں پر یہاں کہ عام شہری آج تک ویسی ہی گھٹن کی زندگی جی رہے ہیں جیسے ان کے بزرگ برطانوی راج میں جی رہے تھے اور یہ رویہ لوگوں کے لئے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے کہ جب ان کے اپنے لوگ ان پر ظلم کرتے ہیں۔

آئین کی کتاب پڑھنے کے بعد یہاں کہ شہری اپنا اور ریاست کا باہمی رشتہ ایسا ہی سمجھتے ہیں کہ جیسا اولاد کا رشتہ ماں کے ساتھ ہوتا ہے جو تمام تکلیفیں خود برداشت کرتے ہوئے اپنی اولاد کو سخت جاڑے میں اپنی آغوش کی گرمی مہیا کرتی ہے اور سخت دھوپ میں اپنے آنچل سے اولاد کے لئے سایہ بن جاتی ہے۔

مگر جونہی یہ شہری اپنی ماں کی دہلیز سے پاؤں نکال کر ریاست کے آنگن میں پاؤں رکھتے ہیں تو تصورات کا محل پاش پاش ہو جاتا ہے۔ جگہ جگہ بھیڑیے ان کی عزت نفس کو مجروح کرتے نظر آتے ہیں۔ پولیس کے محکمے کی ہی مثال لے لیں جن کا بنیادی فرض شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہے لیکن یہی لوگ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے بجائے جگہ جگہ جعلی پولیس مقابلوں میں کہیں ماؤں سے ان کے اکلوتے چھین رہے ہیں تو کہیں بچوں سے ان کے باپ کی شفقت کا سایہ چھین رہے ہیں۔

کسی بھی معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لئے عدل کے محکمے کا درست طریقے سے کام کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے پر یہاں سبھی اداروں کے نرالے رنگ ہیں۔ انصاف کے نظام کی یہ حالت ہے کہ کہیں دس دس لوگوں کے قاتل عدم ثبوت یا شک کا فائدہ دے کر بری کر دیے جاتے ہیں اور کہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسے ہوئے لوگ اپنی بے گناہی ثابت کرتے ہوئے کئی سال پابند سلاسل گزار دیتے ہیں جس سے پورے پورے خاندان متاثر ہوتے ہیں اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ یہی مظلوم نظام سے تنگ آکر آواز اٹھاتے ہیں تو ان آوازوں کو کچل دیا جاتا ہے۔ یہ عمل لوگوں کے دلوں میں چنگاری لگاتا ہے جو پک پک کر لاوے کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور یہی لوگ ریاست کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

شہریوں کے لئے چھت فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے مگر ارض وطن پہ ”دو نہیں ایک پاکستان“ کا نعرہ لگانے والے جب اقتدار میں آتے ہیں تو اپنے غیر قانونی محلات تو ریگولرائز کرا لیتے ہیں اس عمل کی ادئیگی میں انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر براجمان بھی پیش پیش نظر نظر آتے ہیں۔ مگر غریب شہری جو ریاست میں کہیں کوئی جائیداد نہیں رکھتا اور اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی سے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے جھونپڑی نما گھر بنائے تو تجاوزات کے نام پر گرا کر ان شہریوں سے عجیب مذاق کیا جاتا ہے۔

عام شہریوں کو پینے کے صاف پانی جیسی مفت نعمت بھی حاصل نہیں۔ سرکار کے گوداموں میں پڑا اناج خراب ہو جاتا ہے پر تھر کے باسی دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔

اس تمام صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے قبل اس کے کہ پانی سر سے گزر جائے ریاست کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا اور شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرنا ہوں گے تاکہ شہریوں اور ریاست کا رشتہ مضبوط ہو سکے اور ہر شہری دل جوئی سے اپنے فرائض سر انجام دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).