فاٹا میں عورتوں کے حقوق


عورتوں کے حقوق کی بات کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس پر کافی بحث ہو چکی ہے، زمانہِ قدیم سے عورت کے حقوق ایک مسئلہ ہے، خدا نے انسان سمیت تمام جانداروں کے جوڑے (نر، مادہ) تخلیق کیے، لیکن بنی نوع انسان میں یہ چیز ایک مسئلے کی صورت اختیار کر گئی۔

قانونِ فطرت طاقتور نے کمزور پر اپنی اجارہ داری قائم کی یہاں بھی اسی قانون کو اپنایا گیا مرد طاقتور تھا اور عورت کمزور تو عورت مرد کی محکومی میں آگئی جب ایک فریق محکوم بنتا ہے تو وہاں اس کے حقوق بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں حاکم اس کی ہر چیز طے کرتا ہے محکوم صرف حکم بجا لانے والی کٹھ پتلی ہوتی ہے، اور اس کی اپنی شخصیت کہیں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔

تو بات عورت کے حقوق اور اختیارات کی ہو رہی تھی، ترقی پذیر ممالک میں عورت کے حقوق کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی اگر کوئی قانون بنا بھی ہے تو صرف کاغذات کی حد تک حقیقی معنوں میں یہ دیکھنے میں نا ہونے کے برابر ہے۔

یہاں ہم فاٹا کی عورت کی حقوق اور اختیارات کی محرومی کی بات کریں گے، قارئین یہاں مرد اور عورت کا مقابلہ نہیں ہو رہا ہے بلکہ ایک فریق کی بنیادی حقوق سے محرومی کی بات ہو رہی ہے،

ہر پسماندہ علاقے کی عورتوں کی طرح فاٹا کی عورت ان گنت مسائل کا شکار ہے، اس کا پہلا جرم اس کا پیدا ہونا ہے، یہاں لڑکی کا پیدا ہونا کوئی خوشی کی علامت نہیں ہے، بعض گھرانوں میں تو باقاعدہ دکھ، نفرت، اور غم کی علامت سمجھی جاتی ہے، یہاں اس عورت کی کوئی عزت نہیں جس کی بیٹیاں ہو اور بیٹا نا ہو یا بیٹیاں زیادہ ہو اور ایک بیٹا ہو، بیٹی پیدا ہونے پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔

باپ کی جائیداد پر اولاد کا حق ہوتا ہے، یہ حق باپ کی زندگی میں مل جاتا ہے یا باپ کے وفات کے بعد وراثت کی صورت میں اولاد کو مل جاتا ہے لیکن فاٹا میں عورت کو نہ باپ کی زندگی میں کچھ ملتا ہے نہ وفات کے بعد جائیداد بھائیوں میں تقسیم ہوجاتی ہے اور عورت کے بارے میں سوچنے کی زحمت نہیں کی جاتی، یہاں کی عورت کو باپ کے جائیداد میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا اُس کا باپ کے روپے پیسے پر کوئی حق نہیں بس جو کھایا پیا اور اوڑھ پہن لیا یہی کافی ہے۔

فاٹا کی عورت تعلیم کے حصول میں بھی تہی دامن ہے، یہاں کی عورت کے لئے تعلیم ضروری نہیں سمجھی جاتی، اکثر لڑکیاں بڑی مشکل میٹرک کر پاتی ہے اس کے بعد ان کو آگے پڑھنے سے روک دیا جاتا ہے اگر دس فیصد پر حساب لگایا جائے تو تین بمشکل چار فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کر پاتی ہیں، افسوس تعلیم کے زیور سے یہاں کی دس میں سے سات فیصد خواتین محروم ہے، وہاں کے رسم و رواج کو کسی حکومت نے بدلنے کی کوشش نہیں کی نا وہاں کے منتخب نمائندوں نے کوئی خاص توجہ دی۔

اگر وہاں کوئی عورت اعلیٰ تعلیم حاصل کر بھی لے تو اس کو نوکری کی اجازت نہیں، ایک سے دو فیصد خواتین کو اگر اجازت ہے تو وہ لڑکیوں کے سکول میں، اور عورت کی کمائی پر اس کا حق نہیں ہوتا، اگر وہ اکیلی پورا گھر چلانے کی ذمہ دار ہو تو بھی اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہوتی بلکہ وہ گھر کے ناخواندہ مرد کے حیثیت سے کافی نیچے درجے کی شمار ہوتی ہے، جبکہ دین میں علم کو جہالت پر برتری حاصل ہے، لیکن ہیاں مسلمان ہونے کے باوجود ان باتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی، اگر کوئی عورت دین سے ملے ہوئے حقوق کی بات کرے تو اس کو خاندان اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا باعث سمجھا جاتا ہے۔

فاٹا میں عورت گاڑی نہیں چلا سکتی، یہ حیرانگی کی بات ہے کہ پاکستان کے ترقی یافتہ شہروں میں کافی خواتین کو اس کی اجازت نہیں بلکہ سعودی عرب نے تو ابھی ابھی اس کی اجازت دی ہے اس کے باوجود وہاں گاڑی چلانے والیں عورتوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، تو فاٹا کی خواتین کی اس سہولت سے محرومی کوئی بڑی بات نہیں، لیکن عورت کا کھیتوں میں کھلے عام کام کرنا بری بات نہیں تب یہ نہیں سوچا جاتا کہ کتنے نا محرم دیکھ رہے ہیں، عورت کے کھیت میں مرد کے شانہ بہ شانہ کام کرنا فخر کی بات ہوتی ہے، ویسے گاڑی میں نظر آنا یا برقع کے بغیر نکلنا بے حیائی ہے لیکن کھیتوں میں جانے کے لے ایسی کوئی شرط نہیں، ہر گزرنے والے کی اس پر یا اس کے جسم پر نظر پڑنا کوئی معیوب بات نہیں ہوتی۔

حتیٰ یہاں عورت کے کپڑوں کے رنگ تک متنازعہ ہے یہاں عورت کا سفید لباس یا کوئی اس طرح کا رنگ تک مسئلہ ہے، اگر کوئی عورت ایسے رنگ پہنے تو اس کو بے حیا تصور کیا جاتا ہے اگر ایک عورت کپڑوں میں پوری طرح ڈھکی ہوئی ہے لیکن چہرہ نظر آ رہا ہے تو یہ بھی بے شرمی کی علامت ہے۔

فاٹا میں عورت کا موبائل استعمال کرنا یا سوشل میڈیا کا استعمال کرنا بہت بڑا جرم ہے، پچانوے فیصد خواتین کو موبائل کے استعمال کی اجازت نہیں، کافی خواتین چھپ کر موبائل استعمال کرتی ہے پکڑے جانے کی صورت میں مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے حتیٰ کہ قتل بھی کیا جا سکتا ہے، یہ قانون سوشل میڈیا استعمال کرنے والی خواتین کے لئے بھی ہے،

فاٹا میں سو میں سے دس فیصد خواتین پسند کی شادی کر پاتی ہے یہاں پسند کی شادی بہت بڑا جرم ہے اور اکثر خواتین پسند کی شادی کرنے پر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، اگر یہاں عورت کو مرد کے ساتھ کھڑے ہو کر بات کرتے دیکھا جائے تو اس کو مار دیا جاتا ہے یا اس عورت کی مرتے دم تک عزت نہیں ہوتی۔

اور نوے فیصد لڑکیوں کی شادیاں باپ اور بھائیوں کی پسند سے ہوتی ہے، خاندان والوں کی پسند سے شادی کوئی غلط بات نہیں لیکن کافی شادیاں بے جوڑ ہوتی ہے جو رشتہ داریاں یا مفادات کو دیکھ کر کی جاتی ہے، اکثر نوجوان لڑکیوں کی شادی زیادہ عمر کے مرد سے کرنا عام بات ہے جس سے عورت کی زندگی خراب ہوتی ہے۔

عورت پر تشدد کرنا عام بات ہے باپ کے گھر میں بھی اکثر خواتین پر معمولی معمولی بات پر مار پیٹ ہوتی ہے، بھائی بہنوں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، شادی کے بعد اکثر مردوں کی طرف سے عورت پر ہاتھ اٹھانا عام بات ہے اور کوئی اس کی داد رسی کرنے والا نہیں ہوتا، بیوی مرد کی زر خرید غلام کے برابر ہوتی ہے، اگر وہاں عورت پر گھر کے معمولی سی بات پر ہاتھ نا اُٹھایا جائے تو ان کے نزدیک وہ اوقات سے باہر ہو جاتی ہے۔

عورت کو غیرت کے نام پر قتل کرنا بہت عام بات ہے اور اس بات کی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ عورت قصوروار ہے یا نہیں، چاہے بھائی قتل کرے باپ کرے چچا ماموں چچازاد ماموں کوئی بھی اٹھ کر قتل کر سکتا ہے اور کوئی قانون پوچھنے والا نہیں ہے، پولیٹیکل ایجنٹ انتظامیہ اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے نہ اس کے لئے کوئی قانون سازی ہے۔

یہاں کی عورت کے گھر میں فیصلے کی کو بھی اہمیت نہیں دی جاتی، وہ صرف کام کرے، بچے پیدا کرنے اور مرد کی خدمت کی پابند ہے اس کے علاوہ اس کی کوئی حیثیت نہیں، کوئی عورت کتنی بھی ذہین ہو یا صلاحیتوں سے مالا مال ہو کوئی اہمیت نہیں رکھتی نا ان کو اپنے صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملتا ہے بلکہ وہ وقت کے دبیز گرد میں دب کر ختم ہوجاتی ہے،

یہ مسائل فاٹا کے عورت کے ساتھ ہر پسماندہ علاقے کے عورت کے ہیں، اس کو کیسے کم یا ختم کیا جا سکتا ہے؟ جب عورتوں کی جائز حقوق کی بھی بات ہو تو سب سے پہلے مولوی حضرات ٹانگیں اڑاتے ہیں، اور حکومت بھی بہت زیادہ سنجیدگی سے اس پو قانونی سازی نہیں کرتی، اگر کوئی چھوٹا موٹا قانون ہے بھی تو وہ حقیقی زندگی میں نافذ نا ہونے کے برابر ہے، معاشرے کے تعلیم یافتہ اور انصاف پسند لوگوں کو اور حکومت کو مل کر اس پر سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے کہ عورت کو تحفظ فراہم کیا جائے، اور عورت کے ساتھ انسانی سلوک اپنایا جائے اور عورت کو حق سے محروم رکھنے اور تشدد کا نشانہ بنانے پر سخت سزا دی جائے، عورت کے لئے تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے اور تعلیم سے محروم رکھنے پر سخت سے سخت سزا کا قانون نافذ کیا جائے، ماں کی گود پہلی درسگاہ ہوتی ہے اگر ماں تعلیم یافتہ ہوگی تو اولاد بھی اسی رستے پر چلے گی اور ایک تعلیمِ یافتہ معاشرہ وجود میں آئے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).