لوگ کیا کہیں گے؟


کہتے ہیں ایک گاؤں میں باپ بیٹا رہتے تھے۔ ان کے پاس ایک گدھا تھا۔ ایک دن وہ گاؤں سے باہر جارہے تھے۔ بیٹا گدھے پر سوار تھا جبکہ باپ ساتھ پیدل چل رہا تھا۔ ایک راہگیر نے انہیں روکا اور بیٹے سے کہنے لگا ”تم پاگل ہو؟ تمہارا باپ پیدل چل رہا ہے اور تم سواری کے مزے لے رہے ہو“۔ بیٹے کو شرمندگی ہوئی، وہ نیچے اتر آیا اور باپ کو گدھے پر سوار کردیا۔ تھوڑا اور آگے چل کر ایک اور راہگیر نے روک کر باپ کو کوسا کہ تمہارا بیٹا پیدل چل رہا ہے اور تم گدھے پر سوار ہو، کیسے باپ ہو تم؟

باپ شرمندہ ہوا اور دونوں گدھے کے ساتھ پیدل چلنے لگے۔ اس پر بھی لوگوں نے پھبتیاں کسیں کہ گدھے کے ہوتے ہوئے بھی دونوں پیدل چل رہے ہیں۔ باپ نے گدھے کو اٹھا کر سر پر لاد لیا۔ اس پر ان کا مزید مذاق اڑایا گیا۔ گویا کسی بھی طرح لوگ خوش نہ ہوئے اور لوگوں کو خوش کرنے کے چکر میں وہ باپ بیٹا جگ ہنسائی کا شکار ہوتے رہے۔ کچھ یہی حال ہمارا ہے۔ لوگوں کو خوش کرتے کرتے ہم اپنا آپ بھول جاتے ہیں اور اپنی جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔ ہمیں ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں جس سے ہر شخص خوش ہو۔ انسان کتنا ہی دودھ کا دھلا کیوں نہ ہو، کوئی نہ کوئی طبقہ اس کا مخالف ضرور ہوتا ہے اور یہی قانون فطرت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے

” جس شخص کا کوئی دشمن نہ ہو وہ بہت بڑا منافق ہے“

کہتے ہیں کہ انسان معاشرتی حیوان ہے اور معاشرے کے ساتھ مل جل کر رہنا پسند کرتا ہے۔ یہی جبلت اسے لوگوں کی فلاح کی طرف راغب کرتی ہے اور لوگوں کو خوش کرنا اس کا مقصد بن جاتا ہے۔ لوگوں کی نظر میں اپنا اچھا خاکہ بنانا ہر چند برا نہیں ہے مگر یہ تصور کرنا خام خیالی ہے کے ساری دنیا کسی انسان سے خوش ہو سکتی ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو نہ جانے کتنے خیالات اور نظریات کے قتل کا باعث بن رہی ہے۔ ہم اپنے ذہن میں جنم لینے والی اکثر سوچوں اور خیالات کا گلا محض اس لئے گوٹ دیتے ہیں کہ ”لوگ کیا کہیں گے؟ “۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا ایک رقص کی محفل کی مانند ہے۔ یہاں سبھی تماشائی ہیں۔ ہر ایک کو رقص کرنا پڑتا ہے مگر یہ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہونا چاہیے کہ آپ کو کس دھن پر رقص کرنا ہے۔ رقص بھرا یہ تماشا ازل سے جاری ہے اور تا ابد جاری رہے گا۔

بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہو گا

میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے

یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا

(افتخار عارف)

دراصل ہم اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر ہم اپنے کسی کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں تو ساری دنیا ہماری تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیتی ہے لیکن اگر ہم ناکام ہو جائیں تو یہی لوگ ہم پر آوازے کستے ہیں اور ہمارا مذاق اڑاتے ہیں قطع نظر اس کے کہ ہم نے کتنی محنت اور جانفشانی سے کام کیا۔ لوگوں کی نظروں میں اپنے لئے اچھی رائے قائم کرنے کا نشہ بہت سی جگہوں پر اصولوں کے قتل عام کا موجب بنتا ہے۔ اس ڈر کی وجہ سے ہم کلمہ حق کو بھی زبان پر لانے سے کتراتے ہیں اور اپنے نظریات کو خود تک ہی محدود کر لیتے ہیں۔

یہی ڈر نوجوان لڑکیوں کے والدین کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے اور محض دنیا کو دکھانے کے لئے وہ نہ جانے کن کن مشکلات سے گزرتے ہیں۔ معاشرتی دکھاوے کے تقاضے پورے کرنے کے لیے وہ خود کو جن جن مشکلات سے گزارتے ہیں ان کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ خلق کے منہ سے واہ واہ نکلوانے کے چکر میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر اور قرضوں کے بوجھ تلے دب کر اپنی بیٹی کو جہیز دینے کے چکر میں والدین اپنی باقی ماندہ زندگی کو اجیرن کر لیتے ہیں۔ ہر دیکھنے والی آنکھ میں ستائش دیکھنے کے چکر میں خود پر عذاب مسلط کرنا عام ہو چکا ہے۔ حالانکہ کسی دانشور نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ

”ضروری نہیں کہ راستے میں بھونکنے والے ہر کتے کو جواب دیا جائے“

ماضی کے اوراق کھنگالیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج ہم جتنے بھی مشاہیر کو ہیرو کا درجہ دیتے ہیں ان سب پر ان کے وقتوں میں لوگوں نے آوازیں کسیں اور مذاق کا نشانہ بنایا۔ سب سے بڑی مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جن کو جادوگر تک کہا گیا اور قریش کی اکثریت نے آپ کی مخالفت کی۔ علامہ اقبال کے تصور پاکستان کو دیوانے کا خواب کہا گیا۔ قائد اعظم کو کافر اعظم اور مخبوط الحواس تک کہا گیا مگر یہ لوگ لوگوں کی رائے سے قطع نظر اپنے نظریات اور خیالات کے ساتھ مخلص رہے اور آج دنیا ان کی شان میں قصیدے پڑھتی نظر آتی ہے۔ میں تو اس قول پر بھی اعتراض اٹھاتی ہوں کہ ”زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو“ کیونکہ زبان خلق تو ہر لحظہ بدلتی رہتی ہے۔ اس نوع انسانی کو ہر دن ایک نیا ہیرو درکار ہوتا ہے اور یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

منفرد رہنے کی دھن میں اور جیسے ہو گئے

تو خدارا اچھائی یا برائی کا پیمانہ لوگوں کے ہاتھوں میں نہ دیجیے۔ یہ ترازو اپنے ہی پاس رکھیے۔ جو نظریات اور خیالات آپ رکھتے ہیں ان کے پرچار میں عوامی رائے کو اہمیت دینے کا نتیجہ سوائے نظریات کے قتل کے اور کچھ نہیں نکلے گا۔ لہذا خود پر بھروسا رکھیے، فیصلہ کیجئے، اس پر ڈٹ جائیے اور عمل کیجیے۔ لوگ کیا کہیں گے؟ ، بھول جائیے، کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).