21 فروری مادری زبانوں کا عالمی دن


21 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 17 نومبر 1999 کو یونیسکو کی انسانی ثقافتی میراث کے تحفظ کی جنرل کانفرنس کے اعلامیہ میں 21 فروری کو مادری زبان کا دن منانے کا اعلان کیا اور 2000 سے یہ دن پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے۔ 21 فروری 1952 کو ڈھاکہ یونیورسٹی جگن ناتھ یونیورسٹی اور ڈھاکہ میڈیکل کالج کے طلبا جو اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان بنانے کے لیے پرامن احتجاج کر رہے تھے مگر ڈھاکہ میں پولیس نے بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کے حامیوں پر گولیاں چلا دیں جس کے نتیجے میں فائرنگ سے رفیق الدین احمد عبد السلام عبد البرکت و عبدالجبار شہید اور دیگر کئی نوجوان زخمی ہوئے۔ ان شہداکی یادگار کے طور پر بنگلہ دیش میں شہید مینار بنایا گیا اور ان طلبا کی خدمات کے اعتراف میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے نومبر 17 نومبر 1999 میں 17 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا اور بعد میں جنرل اسمبلی نے بھی اس کی توثیق کردی۔

چونکہ مادری زبانوں کے ہر جملے میں قومی روایات تہذیب وتمدن ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں۔ اس لئے نئی ہماری مادی کو ثقافتی ورثے کی بقا اور اس کے فروغ کا سب سے موثر اعلی سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو تو اس قوم کی روایات اس کی تہذیب اس کی تاریخ اور اس کی قومیت سب کچھ مٹ جائے گا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 6912 زبانیں بولی جاتی ہے جن میں 516 ناپید ہو چکی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ زبانیں پاپوا نیو گنی میں بولی جاتی ہے جہاں کل زبانوں کا 12 فیصد یعنی 860 زبانیں بولی جاتی ہے جبکہ 742 زبانوں کے ساتھ انڈونیشیا دوسرے 516 زبانوں کے ساتھ نائجیریا تیسرے۔ 425 کے ساتھ بھارت چوتھے اور 311 کے ساتھ امریکہ پانچویں نمبر پر ہے جبکہ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چینی ہیں جیسے 87 کروڑ 30 لاکھ افراد بولتے ہیں جبکہ 37 کروڑ ہندی 30 کروڑ انگریزی اور 20 کروڑ لوگ عربی بولتے ہیں۔ چین میں 241 زبانیں جبکہ پاکستان میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہے۔

یونیسکو کے مطابق ہر 14 دن بعد دنیا میں بولی جانے والی ایک زبان متروک ہو جاتی ہے جب کہ مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28 ویں نمبر پر ہے۔

پاکستان ایک کثیر اللسان ملک ہے لیکن یہاں قومی زبان اردو اور علاقائی ومادری زبانوں کی اہمیت و حیثیت پر 72 سال سے بحث مباحثہ جاری ہے۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے دور نے ہم سے جہاں ہماری روایت و ثقافت چھین لیا وہاں ہماری مادری زبانیں بھی آہستہ آہستہ ناپید ہو رہی ہے۔ ہماری نئی نسل اردو اور مادری زبانوں کے بجائے انگریزی ادب کو زیادہ ترجیح دیتی ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے لسانی سروے 2003 کے مطابق اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔

مادری زبانیں نہ صرف انسان کی شناخت ابلاغ تعلیم اور ترقی کا بنیادی زینہ بلکہ جذبات کے اظہار کا بھی بہترین ذریعہ ہوتی ہے۔ لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع ثقافت کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔ انسان کی یادداشت بدل جاتی ہے لیکن زبان نہیں بدلتی ہوئی وہ یاداشت کو بھول سکتا ہے لیکن اپنی زبان نہیں بول سکتا۔

اسلامی نقطہ نظر سے بھی مادری زبان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام دین فطرت ہے اور تعلیم کے لئے اسلام نے فطری طریقوں کو پسند فرمایا ہے۔

قرآن مجید کے مطالعے سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اقوام کی فکری اور شخصی تعبیر اور تبدیلی کے لئے اللہ تعالی نے جتنے انبیائے کرام مبعوث فرمایا ان کا اپنی قوم سے تعلق رہا ہے۔ انبیائے کرام نے اپنا دعوتی اور انقلابی مشن اپنی قوم کی زبان میں پیش کیا۔

دین کی تبلیغ اور پیغام حق کے لئے تفصیل و دعوت کے لئے انبیاء کرام نے لوگوں کے مزاج کلچر تمدن اور فہم کو پیش نظر رکھا۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کو عربی زبان میں نازل فرمایا تاکہ اہل علاقہ فرمان ربانی تعالی کو بخوبی سمجھ سکیں۔

دین فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ابتدائی تعلیم جو مادری زبان میں مہیا کی جائے گی وہ اہمیت و افادیت سے خالی نہیں ہو گی اس لیے مادری زبانوں کی اہمیت سے ہرگز انکار ممکن نہیں۔

مادری زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے ورثے میں ملتی ہے یا وہ جس گھرانے اور خاندان میں پیدا ہوتا ہے وہ بچے کی مادری زبان کہلاتی ہے اورماہرین لسانیات کے مطابق زبانوں کے متروک ہونے کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب والدین اپنے بچوں کو مادری زبان نہیں سکھاتے۔

ماہرین لسانیات کے مطابق پاکستان میں 74 مادری زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 24 زبانیں سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے ناپید ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم سائنس و ثقافت (یونیسکو) کے مطابق دنیا میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے فروغ کے ذریعے عالمی ثقافتی اور لسانی ہم اہنگی اتحاد اور یگانگت کو قائم کیا جاسکتا ہے۔

آج کے جدید دور میں مادری زبان میں تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے۔ مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام۔ عدالتی نظام اور دفتری اور سرکاری نظام سب کا سب انگریزی زبان میں ہے اوراور پاکستان میں اردو کو قومی زبان اور مادری زبانوں کو اپنا جائز مقام دلانے کا مسئلہ تاحال حل طلب ہے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 251 کلاس 3 میں مقامی/مادری زبانوں میں تعلیم اور انہیں اردو کے ساتھ صوبائی زبان کا درجہ دلانے کا اختیار صوبائی حکومت کو دیا گیا ہے۔ سندھ میں اس آرٹیکل پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور آٹھویں جماعت تک تمام طالب علموں کو سندھی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے جبکہ پشتونخوا میں صوبے کے تمام زبانوں کو لازمی مضمون کا درجہ دے کر سکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے مگر بلوچستان میں پشتو بروہی بلوچی سمیت پنجاب میں پنجابی اور سرائیکی زبانوں کو تاحال یہ مقام نہیں مل سکا ہے۔ اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ مادری زبان زبانوں کو اگلی نسل تک اس طرح منتقل کیا جائے کہ وہ ان کے لئے بھرپور دلچسپی کا باعث بنیں جس کے لئے عوامی کوششوں کے ساتھ سوشل میڈیا کا سہارا بھی لینا چاہیے۔

برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے علمبردار اور بلوچستان میں صحافت کے بانی خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ترقی کی عمارت کی بنیاد علم ہے اور علم کے حصول کا بنیادی زینہ مادری زبان ہے خان شہید کے مطابق زبان کی ترقی آزاد اور خود مختیار قوم کی نشانی ہوا کرتی ہے۔

بیشترممالک میں تاحال مادری زبانوں کو اپنا اصل مقام مرتبہ نہیں ملا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں لگ بھگ تین ہزار زبانوں کو یہ خطرہ درپیش ہے وہ کہیں وہ ختم نہ ہو جائیں۔ دنیا بھر کے ماہرین اس بات پر متفق ہے کہ بچوں کو بنیادی تعلیم ان کی اسی زبان میں دینی چاہیے جو کہ ان کی مادری زبان ہے اگر اس اصول کو بروقت اپنا لیا جاتا تو آج سری لنکا کی طرح پاکستان میں بھی 98 فیصد لوگ پڑھے لکھے ہوتے۔ اس لئے زبانوں کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ ان کے استعمال کو جاری رکھا جائے۔

مادری زبان اور قومی زبان میں نمایاں فرق ہوتا ہے مادری زبان کسی بھی فرد یا خاندان کی وہ زبان ہوتی ہے جو برسوں سے اس کے گھر یا خاندان میں بولی جارہی ہوتی ہے جبکہ قومی زبان و قرار پاتی ہے جس سے رابطے کی زبان کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق ملک کی قومی زبان اردو ہے چونکہ اردو چاروں صوبوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لوگوں کے لیے رابطے کی زبان ہے لیکن قومی زبان ہونے کے باوجود اردو کو مقام ومرتبہ نہیں مل سکا جس کی ضرورت ہے۔

حالانکہ سپریم کورٹ پاکستان کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے 8 ستمبر 2015 کو اردو کو دفتر ی زبان کے طور پر نافذ کرنے اور آئین کے آرٹیکل 251 پر عمل درآمدکا حکم جاری کیا تھا۔ اس لیے ملکی ترقی کے لئے ناگزیر ہے کہ مادری زبانوں کی ترقی اور فروغ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں قومی زبان اردو کو بھی وہ مقام و مرتبہ دیا جائے جس کا آئین ودستور پاکستان تقاضا کرتا ہے۔

نوجوان نسل شدت سے چاہتی ہے کہ مقابلے کے امتحانات اردو زبان میں لئے جائیں۔ ابتدائی تعلیم مادری و علاقائی زبان اور ثانوی تعلیم قومی زبان اردو میں دی جائے۔ مادری و قومی زبانوں کے ادباء شعرا اور محققین کو سرکاری سرپرستی کی جائے اور دیگر زبانوں کے کتب کو اردو پشتو بلوچی بروہی سرائیکی پنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تا کہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے آپ کو منوا سکیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں سندھی زبان کے علاوہ کسی بھی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جا رہی ہے اس لئے قومی زبان اردو اور مادری زبانوں کی ترقی و ترویج کے لئے موثر اقدامات اٹھانا ناگزیر ہے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ مادری زبانوں پشتو بلوچی بروھی سراکی پنجابی اور دیگر کو پرائمری سے لے کر بی اے تک تعلیمی اداروں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے جب کہ مادری زبانوں کے اخبارات کے لیے سرکاری سطح پر اشتہارات کا خصوصی کوٹہ مقرر کیا جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).