ایک سرد رات کا کھانا


سردیوں میں پرندے سرد ممالک سے ہزاروں میل کی اڑان بھر کر پاکستان جیسے گرم علاقوں میں آتے ہیں۔ براعظم آسڑیلیا کا معاملہ الٹ ہے کہ گرمیوں اور کرسمس کی چھٹیاں اکٹھی ملتی ہیں اور ہم جیسے لوگ بطور پرند ہزاروں میل کی اڑان کے ذریعے گرم موسم سے پاکستان سرد موسم میں آتے ہیں۔ سو اس سال بھی ہم سردیاں اور دھند منانے وطن آئے۔

جنوری کی سرد شام تھی کہ انٹرنیٹ بتا رہا تھا کہ درجہ حرارت 4 ڈگری تک ہے۔ بچوں نے منہ سے سرد بھاپ نکالتے کہا کہ اس کلب چلتے ہیں جو کہ مشہور ہے اور ہماری وہاں کی پرانی ممبر شپ بھی ہے۔ سو کلب پہنچے اور وہاں کے کیفے میں داخل ہوئے۔ اس کا ہال گرم تھا۔ سرد ی کی بنا پر کچھ ہی لوگ گھروں سے نکل کر وہاں آئے تھے سو ہال کافی حد تک خالی تھا۔ کرسیاں کھینچ کر بیٹھے ہی تھے کہ کیفے کے مینجر آن پہنچے کہ آپ کی بیٹی 12 سال سے کم عمر ہے سو آپ اندر نہیں بیٹھ سکتے، باہر بیٹھیے۔

انہیں عرض کی کہ باہر بہت سردی ہے، آپ کا باہر سردی سے بچاؤ کا انتظام بھی ناکافی ہے، بچوں کے لیے تو اور بھی مشکل ہے۔ کہنے لگے قانون تو قانون ہے، یہ بچے تو پھر کچھ بڑے ہیں ہم تو نومولود بچوں کو بھی باہر بٹھواتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ اس کی وجہ ضرور بچوں کو سخت جان بنانا ہوگا۔ تاتاریوں کے بارے میں پڑھا تھا کہ ان کی عورتیں اتنی سخت جان تھیں کہ سرد صحرائے گوبی میں گھوڑا دوڑاتے رکتی تھیں، بچے کو جنم دیتی تھیں اور پھر نومولود کو بھی اُسی گھوڑا پر لاد کر ایڑ لگا دیتی تھیں۔ نوٹ: ایڑ گھوڑے کو لگاتی تھیں نومولود کو نہیں۔ آنکھوں میں فرط عقیدت سے نمی سی آگئی کہ اس کلب کی انتظامیہ اگلی نسل کی سخت جانی کے لیے کیسے کوشاں ہے۔

مینجر صاحب سے کہا کہ لباس کے قوانین تو دکھا دیں سو وہ ایک صفحہ لے آئے۔ کیفے کے متعلقہ قانونِ لباس دیکھا تو انگریزی میں لکھا تھا کہ 12 سال سے کم عمر بچوں کو کیفے، برآمدہ، ٹیریس اور باربی کیو ٹیریس میں بیٹھنے کی اجازت ہے۔ ہماری انگریزی شروع سے ہی کمزور رہی ہے بلکہ ہماری اردو کے بارے میں بھی ساتویں جماعت میں محترم استاد غلام مصطفے صاحب کہتے تھے کہ نالائق، اگر اردو میں روٹی مانگ لیتا ہے تو سمجھتا ہے اردو آتی ہے۔

اور یہاں تو انگریزی میں روٹی مانگنے کا معاملہ تھا سو مینجر صاحب سے رہنمائی چاہی کہ ہمارے لحاظ سے ا گر دو لفظوں کے درمیان میں قومہ ہو تو وہ الگ الگ ہوتے ہیں، سو تحریر کے لحاظ سے کیفے اور برآمدے دونوں میں بچے بیٹھ سکتے ہیں۔ کہنے لگے قانون تو قانون ہے اورقانون اندھا بھی ہے، اور یہاں تو اُس کے پڑھے لکھے ہونے کی بھی ضرورت آن پڑی ہے، سو کسی پڑھے لکھے کے پاس چلتے ہیں۔

سو ہمیں ایڈمنسڑیشن بلاک میں ایک کرنل صاحب کے سامنے پیش کیا جو ایک گرم کمرے میں ٹھنڈے بیٹھے تھے۔ عرض کیا کہ معاملہ یہ ہے کہ سردی بہت ہے اور بچے چھوٹے ہیں اور ہال خالی ہے، اور تحریر کی انگریزی بھی کہتی ہے کہ بچے ہال میں بیٹھ سکتے ہیں۔ قوانین کے کاغذ کو پڑھا اور کہنے لگے آپ صحیح کہہ رہے ہیں، تحریر کی رو سے بچے کیفے میں بیٹھ سکتے ہیں، مگر قانون کہتا ہے کہ بچے اندر نہیں بیٹھ سکتے۔ کرنل صاحب کی اس بات سے ذہن میں یکایک مزنگ چونگی کے رکشے والے کا قصہ یاد آ گیا۔

گئے دنوں میں مارشلائی دور کی ضیاء تھی، ہر ٹیکسی، رکشے والے کو میٹر لگانے کی ہدایت تھی۔ ہم نے مزنگ چونگی پرکھڑے ایک رکشے والے سے کہا کہ گورنمنٹ کالج چلو گے۔ اس نے کہا ضرور چلونگا۔ کہا میٹر کے مطابق پیسے دوں گا، اس نے کہا بالکل، آج کل تو قانون ہے کہ میٹر کے مطابق ہی پیسے لیے جاتے ہیں۔ ایسے ہی خیال آیا، تو پوچھا کیا میٹر ٹھیک ہے؟ جواب آیا، میٹر تو ٹھیک نہیں بلکہ تیز چلتا ہے مگر پیسے قانون کے لحاظ سے میٹر کے مطابق ہی ہوں گے۔

یاد سے چہرے پر مسکراہٹ آئی ہی تھی کہ سردی کے اثر سے کپکپا گئی۔ کشمیری چائے کا معاملہ تھا کہ چینی میں مناسب مقدار نمک مل کر ذائقہ بناتا ہے مگر اگر نمک زیادہ ہو تو چائے کڑوی ہو جاتی ہے۔ اور اس شام سردی اور قانون دانی دونوں نے یاد کا ذائقہ تلخ کر دیا تھا۔

کرنل صاحب سے درخواست کی کہ بچوں کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کریں کہ اپنے ہیں، مگر انگریزی کے ساتھ تو ایسا سلوک نہ کریں۔ اگر یہ ڈریس ریگولیشن کا کاغذ اڑ کر ساتھ واقع گورے قبرستان چلا گیا تو کئی اینڈریو اور لنڈا کی روحیں کلب آنے سے تائب ہوجائیں گی، دیسی گوروں پر ہی گذارا کرنا پڑے گا۔ ویسے بھی اگر اس کلب سے انگریزی نکل گئی تو پیچھے بچتا ہی کیا ہے۔ بقول شخصے جِم اور کھانا ہی رہ جائے گا۔ اور جم میں قانون کی عملداری تو ہم دیکھ ہی چکے تھے۔

اس کلب کا جِم خوبصورت ہے، خوب مشینیں ہیں، اور ماحول مشینوں سے بھی خوب تر۔ یہ بھی علم ہوا تھا کہ اسی ماحول کے وجہ سے کئی باہر کے لوگ بھی اس جِم سے فیض یاب ہوتے تھے۔ سنا تھا کہ فیض ہی کسی مقام تک پہنچاتا ہے، مگرا س معاملے میں گمان ہے کہ کچھ فیض خود چل کر کسی مقام پر پہلے ضرور پہنچتا ہوگا۔ تین چار ہٹے کٹے ٹرینر تھے۔ ہم نے فیس دے کر جِم جوائن کیا تو خیال تھا کہ یہ ٹرینر ادا کردہ فیس اور ممبر شپ کے باعث گائیڈ کرنے کے پابند ہیں۔

پہلے دن اپنا تعارف کروایا کہ آسڑیلیا کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں اور ایک ماہ کی چھٹی پر ہوں، آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ ٹرینر کی آنکھ میں ایک چمک آئی، ایسی چمک جو کسی کایاں دکاندار کی آنکھوں میں معصوم گاہگ دیکھ کر آتی ہے۔ پہلے دن چند مشینوں کا استعمال بتلا دیا۔ اس کے بعد پوچھو بھی تو ایسی بے اعتنائی برتنے لگے کہ حیرت ہوتی تھی۔ عجب معاملہ دیکھا کہ کچھ لوگ جِم میں آتے تو یوں ٹرینر ان کے آگے پیچھے ہوتے جیسے موٹے موٹے بھنورے پھول کے آگے پیچھے ہوتے ہیں۔ جِم کے ایک پرانے ممبر سے پوچھا تو کہنے لگے، آپ کو وقتاً فوقتاً ان سے ہاتھ ملاتے رہنا چاہیے، اور یاد رکھیئے گا ہاتھ ملاتے وقت ہاتھ خالی نہ ہو۔ یہ صحتیں صرف ورزش سے تو نہیں بنتیں۔

جم سے دوبارہ کھانے کی طرف آتے ہیں۔ قانون کی تعلیم میں وقت تو لگتا ہے، سو اب لیٹ ہورہے تھے سو کرنل صاحب سے واپس کیفے میں پہنچ کر سردی میں باہر بیٹھ کر آرڈر دیا۔ بچوں کے ذہنوں میں کئی سوال تھے، نئی نسل کا مسئلہ یہی ہے، سوال بھی کرتے ہیں اورعقل بھی استعمال کرتے ہیں۔ کہنے لگے آسڑیلیا بھی تو برطانوی تربیت یافتہ ہے مگر ایسا معاملہ کبھی نہ دیکھا بلکہ آپ کے ڈیپارٹمنٹ میں تو استاد گرمیوں بلکہ سردیوں میں بھی نیکر پہنے لیکچر دینے آجاتے ہیں۔ سمجھانا پڑا کہ آسڑیلیا تو آباد ہی برطانوی جرائم پیشہ سے ہوا اور ہم تو قانون پر عملداری کرنے والے ہیں۔ پوچھنے لگے کس قانون پر؟ بچوں کو کہا کہ آنکھیں بند کرلیں تو قانون سمجھ جائیں گے اور برآمدے کے ساتھ ہی خالی پڑا گرم ہال اتنا اچھا محسوس نہ ہوگا۔ مگر سردی تھی کہ آنکھیں بند ہی نہ کرنے دیتی تھی۔

باہر ٹیرس میں دو قد آور سوئی گیس کے ہیٹر دھڑا دھڑ جل رہے تھے گو ساتھ کوئی نہ بیٹھا تھا۔ اب بچوں کو مسئلہ تھا کہ گیس ضائع ہو رہی ہے، فضا آلودہ الگ ہو رہی ہے، ہیٹربند ہونے چاہئیں۔ جب گرم ہال خالی ہے تو یہ ضیاع بچ سکتا ہے۔ عقل کے استعمال کے ساتھ ساتھ نئی نسل کا ایک اور مسئلہ ماحول کے بچاؤ کی فکر بھی ہے۔ سمجھانا پڑا کہ بچو ہمارے ہاں آخرت کی فکر کی جاتی ہے، دنیاوی آلودگی تو یہیں رہ جائے گی۔ مگر بچوں کے چہروں سے نظر آرہا تھا کہ کلب اور آخرت کی فکر ان کو دو الگ الگ موضوع لگ رہے تھے۔

سو ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ ایسے کلب جو تہذیب سکھانے کہ دعویدار ہیں ان میں بچوں کا داخلہ بالکل بند ہونا چاہیے کہ نئی نسل کا مسئلہ ہے کہ سوال بھی کرتے ہیں اورعقل بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایک دوسری درخواست یہ بھی ہے کہ بچوں کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کریں کہ اپنے ہیں، مگر انگریزی کے ساتھ تو ایسا سلوک نہ کریں جیسا انگریزوں نے ہمارے ساتھ کیا تھا۔

عاطف ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 73 posts and counting.See all posts by atif-mansoor