جمہوریت اور امن


پاکستان میں تبدیلی آچکی ہے۔ اور جناب محترم عمران خان کو حلف اٹھاتے چھ مہینے سے زیادہ گزر بھی چکے ہیں۔ ہمارے ملک کی روایت کے مطابق اس الیکشن میں بھی دھاندلی کے الزام لگے اور ہمیشہ کی طرح الزام ملک کے طاقتور ادارے پر لگے۔ بعض تجزیوں کے مطابق الیکشن ماضی کے الیکشن سے قدرے بہتر تھے اور اکثریتی رائے اور سروے کرانے والے اداروں کے مطابق حالیہ الیکشن پچھلے الیکشن سے بہتر نہ تھے۔ میرا ذاتی خیال بھی کچھ اس طرح ہے۔

اور یہ کہاوت مشہور ہیں۔ کہ بدترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہے۔ ایک اور کہاوت کے مطابق جمہوریت ایک بدترین نظام ہے لیکن اس سے بہتر نظام اب تک دریافت نہیں ہوئی۔ جمہوریت کی ابتداء تو یونان سی ہوئی لیکن ہمارا ہمسائے ملک بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ہیں۔ بحیثیت ایک عام اور روشن خیال پاکستانی یہ میری شدید ترین خواہش ہے کہ میرا ملک اس عزاز کا حقدار ٹھہرے اور نا امیدی گناہ ہے۔ کشمیر میں حالیہ دہشتگردی کے واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات ماضی سے بھی زیادہ خراب۔

اور ایسے حالات میں پاکستان اور بھارت جمہوریت پر تبصرے سوشل میڈیا کی رونقیں بھی بڑھاتے ہیں۔ اور باقی رہی سہی کسر سعودی عرب کے ولی عہد کے دورہ پاک و ہند نے پوری کردی۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلے مرحلے میں پاکستان پہنچے جہاں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے خود ائیرپورٹ پر استقبال کیا بلکہ وزیراعظم ہاؤس لاتے ہوئے خود ڈرائیونگ کی۔ پاکستانی فضائیہ نے سلامی دی۔ اس دورے میں توجہ تو ولی عہد پر بھی زیادہ تھی لیکن بیرونی دنیا اور چند بڑے تجزیہ نگاروں کی توجہ کا مرکز پاکستان آرمی کے سہ سالار جناب قمر باجوہ بھی تھے۔

پاکستان کو ولی عہد محمد بن سلمان کے دورے سے کافی فائدہ مند نتایج بھی حاصل ہوئے۔ جس میں سعودی سرمایہ کاری اور سعودی میں پاکستان کے لئے آسانیاں پیدا کر شامل تھے اس سے بڑھ کر سعودی ولی عہد کا اپنے آپ کو سعودی عرب میں پاکستان سفیر کہنا۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان دورہ مکمل کرنے کے بعد پڑوسی ملک بھارت جا پہنچے جہاں ان کا استقبال ویسا ہی ہوا جیسے ہمارے وزیراعظم کا سعودی عرب یا دوسرے ملک میں ہوتا ہے میں ہوا تھا۔

بھارت میں دورے کے دوران ولی عہد محمد بن سلمان اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی توجہ کے مرکز تھے۔ اور یہ بات بالکل واضح نظر آرہی تھی کہ بھارت کے آرمی چیف نہ دکھائی دیے نہ سنائی دیے۔ بھارت اور پاکستان ایک دن کے فرق سے آزاد ہوئے۔ لیکن جمہوریت میں انڈیا کی پہلی اور شاید پاکستان پہلے پچاس ملکوں میں تو ہوگا۔ بھارت میں الیکشن مقررہ وقت پر پر ہوتے ہیں اور ہر سیاسی کھل کر بے خطر سیاسی کھیل میں حصہ لیتی ہیں۔

اس کے بر عکس پاکستان میں ہر بار مخصوص پارٹی کے لئے ماحول سازگار ہوتا ہے سوائے ستر کے الیکشن۔ بھارت میں سیکورٹی ادارے الیکشن ماحول سے دور نظر آتی ہے۔ اور یہاں یہ سارا عمل سیکورٹی اداروں کے نگرانی میں ہوتا ہے۔ بھارتی آرمی چیف الیکشن کا نام تک نہیں لے سکتے اور یہاں ووٹ دینے کی اپیل ہوتی ہیں۔ ہر ادارے کی عزت اور احترام ہر پاکستانی پر فرض ہے اور پارلیمنٹ کی عزت ہمارے ملک پڑوسی ملک سے کم ہو افسوس کی بات ہے۔

بھارت اگر جمہوریت کا علمبردار ہونے کا دعویدار ہے۔ تو ہمیں بھی برتری حاصل کی کوشش کرنی چاہیے۔ کہ ہم بھی جمہوری نظام کے نقائص دور کریں۔ مضبوط جمہوریت مضبوط فیصلوں کی کنجی ہیں۔ اور پاک و ہند میں جمہوریت اور امن ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور جنوبی ایشیا کا امن دونوں ملکوں کے امن سے وابستہ ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان چونکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنا بڑا بھائی اور اپنے آپ کو پاکستانی سفیر مان چکے ہیں تو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو ان لے ذریعے اپنے بڑے ہمسائے کے ساتھ امن مذاکرات کی پیشکش کرنی چاہیے۔ تاکہ یہ خطہ ماضی کی طرح پر امن اور ترقی یافتہ بن سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).