خشخاش کے پھول


خشخاش کے پھول صدیوں سے سکون، امن اور ابدی نیند کی علامت کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ سکون، کیونکہ اس پودے سے درد کی دوا افیون ملتی ہے۔ پھولوں کا رنگ سرخ ہونے کی وجہ سے ابدی نینداور موت۔ یونانی اور رومی روایتی کہانیوں میں اس کو موت کے بعد دوسری زندگی کی علامت بھی جانا جاتا تھا۔ ان کو قبر کے کتبہ پربھی کندہ کیا جاتا رہا ہے۔

خشخاش کے بیج بہت سخت جان ہوتے ہیں اور سو سال تک زمین میں موجود رہتے ہیں۔ جو نہی زمین میں مناسب تبدیلی ہوتی ہے یہ اگنا شروع کر دیتے ہیں۔ جنگ سے پہلے یورپ کی زمین میں چونے کی مقداراتنی کم تھی کہ اس میں خشخاش کے پودے کم ہی اگتے تھے۔ تباہ شدہ گھروں اوردیواروں نے مردہ لوگوں کی ہڈیوں کے ساتھ مل کر مٹی میں چونا اور کیلشئیم کی مقدار کا اضافہ کردیا جس سے زمین پر سرخ پھولوں کا قالین بچھ گیا۔ اس طرح جنگ عظیم کے میدانوں میں ان پودوں کی وسیع فصل نظر آئی۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران بیلجئیم کے قصبہ فلینڈرز میں جرمنی نے کسی بھی جنگ میں پہلی مرتبہ کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔ بڑی تعداد میں فوجی زخمی اور شہید ہوے۔ اس جنگ میں ایک کنیڈا کا ڈاکٹرجان مکرے بھی موجود تھا اس کا دوست اس جنگ میں شہید ہوا۔ 1915 مئی کواس کا جنازہ ہوا۔ اس نے دیکھا کہ سپاہیوں کی قبروں پر بڑی جلدی پوست کے پودے اگ آتے ہیں۔ ان پھولوں کو دیکھ کر اپنے دوست کی یاد میں اس نے مشہور نظم In Flander`s fieldsلکھی۔

یہ نظم شہدا کی قربانی بیان کرتی ہے اور جنگ کے بارے میں ان کے جذبات پیش کرتی ہے۔

فلینڈرز کے کھیتوں میں

پوپی کے پھول ہوا کے ساتھ ہیں مہکتے

صلیبوں کے درمیان، قطار اندرقطار

اب ہم مردہ ہیں۔ کچھ دن پہلے

ہم زندہ تھے۔

طلوع آفتاب محسوس کرتے

ڈوبتا سورج دیکھتے

محبت کرتے ”اور محبت پاتے

(افسوس) اب لیٹے ہیں، فلینڈررزکے کھیتوں میں۔

یہ جذباتی نظم اتنی مقبول ہوئی کہ آج ان جنگوں کے یادگاری میدان خشخاش کے پھولوں سے سجاے جاتے ہیں۔

ان عالمی جنگون کا کروڑوں جوان رزق ہوے۔ ہزاروں شہر کھنڈر بنے۔ سہاگنوں کی سیج اجڑی۔ آج بھی ان ممالک میں مردوں کی تعداد عورتوں سے کم ہے۔ کروڑوں جوان زخمی ہو کر عمر بھر کے لئے اپاہج ہوے۔

پاکستان اور انڈیا کے عوام نے صرف جنگ کا نام سنا ہے ان کا دکھ نہیں سہا۔ ان کی جنگیں اتنے کم دن چلتی ہیں کہ تاریخ کی چھوٹی جنگوں کی لسٹ میں تیسرے نمبر پر آتی ہیں۔ ان کے درمیان ہونے والی جنگوں میں اموات کی تعداد سینکڑوں سے آگے نہیں جاتی۔ لیکن اب ان کے پاس وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ جن کے استعمال کی دھمکی دونوں کا شیوہ ہے۔ اگر غلطی یا کسی بے وقوفی سے ان کا استعمال شروع ہوگیا تو یورپ کے نقصانات کم نظر آئیں گے۔ انسانی تاریخ نئے حوالے بیان کیا کرے گی۔ کارگل کی جنگ میں ان کو حرکت میں لایا جا چکا تھا۔ اس وقت دونوں کی مدد کو امریکہ آگیا۔ اب ادھر وہ حکمران ہے جو شاید پرواہ بھی نہ کرے۔ اب دونوں کو خود اس جنگ کا سدباب کرنا پڑے گا۔ ورنہ اس کے بعدکشمیر کی سرسبزپہاڑیاں خشخاش کے سرخ پھولوں کی سیج سجائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).