قومی مسائل


پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں اللہ تعالی نے پاکستان کو بیشمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ اگر آج کل بھارت نے اپنے ٹماٹر بند کردیئے ہیں بھی تو اس میں ہمارا ہی قصور ہے۔ کیونکہ ہم نے ٹماٹروں کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے کسانوں کو خودکفیل نہیں بنایا۔ اگر ہمارے کسان خودکفیل ہوتے تو وہ ٹماٹر کی اتنی فصل لگاتے کہ جب کبھی بازار میں لڑائی ہوتی تو سب سے زیادہ قتل ٹماٹروں کا ہوتا۔ ویسے بھی پاکستان میں بیگناہ خون بہانا ریت بن چکی ہے اچھا ہوتا مفت میں بچارے ٹماٹروں کا خون بہایا جاتا۔

چھوڑیں ہمارا کیا ہم نے کون سا ٹماٹروں کا اچار ڈالنا ہے جو بلاوجہ اتنا سر پہ چڑھا رکھا ہے۔ اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں پاکستانی قوم کے کچھ ایسے مسائل ہیں جو دراصل مسائل نہیں۔ چونکہ بدقسمتی سے ہم کریڈٹ کے زیادہ شائق ہیں اس لئے ہم اخلاقی ذمہ داریوں کو بھی قومی مسائل بنا لیتے ہیں۔ جیسے آج کل ایک افواہ چل پڑی ہے کہ اتوار کی چھٹی منسوخ کرکے حکومت نے جمعہ کے دن چھٹی کا اعلان کیا ہے۔ افواہ اس لئے کہا کہ ہمارے وزیراعظم عظیم لیڈر ہیں کسی وقت بھی یوٹرن لے کر یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ چھٹی اتوار کے دن ہی ہوگی۔ حکومت نے اتوار کے دن چھٹی منسوخ کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا نہ ہی ایسی کوئی بات زیرِ بحث آئی ہے۔

بندہ پوچھے چھٹی تو کسی دن بھی منائی جاسکتی ہے تو پھر آگے پیچھے اوپر نیچے کرنے کی کیا ضرورت درپیش آئی؟ کچھ لوگوں کی رائے ہے جمعہ والے دن چھٹی سے ہم نماز جمعہ ادا کریں گے۔ اچھی بات ہے جمعہ کی نماز ادا کرنی چاہیے مسلمانوں پر جمعہ نماز واجب ہے۔ اگر کسی نے پوچھ لیا بھئی صاحب چھٹی نہ ہوئی تو کیا آپ جمعہ نماز ادا نہیں کریں گے یا پہلے جمعہ نماز ادا نہیں کرتے تھے؟ میرے خیال میں یہ سوال کوئی نہیں پوچھے گا کیونکہ سامنے والا غصہ سے یہی جواب دے گا تم لبرل ہو اس لئے جمعہ والے دن چھٹی پر ایسے سوالات پوچھ رہے ہو۔

یہ بات بالکل درست ہے جمعہ والے دن چھٹی سے لوگوں کو فرصت ملے گی۔ لوگ تسلی سے جمعہ نماز کی تیاری کرسکیں گے مگر جو لوگ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات ساری ساری رات گپوں یا گھومنے پھرنے میں گزار دیتے تھے اور صبح ہوتے ہیں بستر میں گھس جاتے ہیں اب وہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات کو انجوائے کریں گے۔ ویسے بھی بڑے شہروں کا معمول چھوٹے شہروں اور دیہاتوں سے یکسر مختلف ہے۔ بڑے شہروں کے لوگ راتوں کو جاگتے اور دن کو سوتے ہیں۔

اتوار والے دن ہائیکنگ کے مزے لینے اور انجوانے کرنے جاتے ہیں۔ وہ لوگ اب جمعہ یعنی چھٹی والے دن انجوائے کریں گے۔ چھٹی کا مقصد نمازیوں کے لئے آسانی پیدا کرنا ہے مگر اسلامی تصور تو یہ ہے اذان ہوتے ہی اپنے کام کاج چھوڑ چھاڑ کر مسجد پہنچ جائیں اور نماز ادا کرنے کے بعد رزق کی تلاش میں اللہ تعالی کی زمین میں پھیل جائیں گے۔ نمازی تو پہلے بھی یہی کرتے ہیں۔ نماز سے پہلے بھی رزق کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں اور اذان سنتے ہی اپنے کام کاج چھوڑ چھاڑ کر مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔ نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر رزق کی تلاش میں اللہ تعالی کی زمین میں پھیل جاتے ہیں۔ ان کے لئے چھٹی کا تصور تھا ہی نہیں ویسے بھی زیادہ اسی میں ہے کہ مسلمان اپنے کام کاج پر نماز کو ترجیح دے نہ کے سو سو کر تھک جائے تو نماز جمعہ ادا کرنے نکل جائے۔

ویسے اسلام میں بھی چھٹی کا کوئی تصور نہیں جن نے نماز ادا کرنا ہوتی ہے وہ اپنے کام چھوڑ چھاڑ کر بھی ادا کرتے ہیں اور جنہوں نے غفلت برتنی ہے انہیں چھٹی بھی نماز ادا کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ مگر کچھ یار دوستوں نے جمعہ کی چھٹی کو دین کا بنیادی رکن سمجھ رکھا ہے اس لئے ایسے لوگوں سے سوال کرنا بھی جوکھوں میں پڑنے کے مترادف ہے۔

یہی صورتحال چینلز پر اذان کی ہے۔ اذان کا مقصد نماز کے لئے بلانا ہے دین میں تو اسے گناہ سمجھا جاتا ہے کہ اذان سن کر نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد نہ جایا جائے۔ جبکہ چینلز پر اذان کی رسم سے مراد ہے جس چینل پر اذان ہورہی ہو چینل تبدیل کردیں یا پھر 10، 15 منٹ کے بعد مسجد جانے کے بجائے ایک مرتبہ پھر ٹاک شو لگا کر بیٹھ جائیں۔ ویسے چینلز والی اذان پر مسجد جانا لازم بھی نہیں۔ مطلب یہ اذانیں نماز کا بلاوا نہیں بس ایک رسم ہے۔ دین مکمل عمل کا نام ہے جبکہ ہم نے دین کو رسموں میں الجھا رکھا ہے۔

گزارش یہ ہے اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی ہے۔ حکومتِ وقت نے اگر اتوار کی چھٹی منسوخ کردی ہے تو عیسائی برادری جو اتوار کے دن اپنی عبادت گاہوں میں جاتے ہیں ان کی عبادت اتوار والے دن ہی ہوتی ہے یقینا عیسائی برادری کے لئے اتوار والے دن ہی چھٹی ہوگی۔ مسلمان جمعہ کے دن چھٹی کریں گے اور عیسائی برادری اتوار والے دن چھٹی کرے گی۔ مگر نہ نماز کے وقت اسمبلی اجلاس منسوخ ہوگا نہ کسی کی میٹنگ میں بریک آئے گا نہ کوئی حکمران اپنی تقریر اور پریس کانفرنس چھوڑ کر مسجد پہنچ جائے گا۔

آخری بات تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں اس تحریر میں تنقید نہیں ہے محض کریڈٹ والی نفسیات کی بات کی ہے جو بحیثت قوم ہم میں گھر کرچکی ہے۔ ہمیں بنیادی مسائل پر توجہ دینی چاہیے اور اسلام کو عملی انداز میں اپنانا چاہیے۔ ہم سود تو ڈٹ کے کھاتے ہیں جھوٹ ہمارے خون میں شامل ہوچکا ہے۔ وعدہ خلافی ہمارے نزدیک عظیم لیڈر کی نشانی ہے۔ ظلم نا انصافی سے ہمیں ہرگز بھی ڈر نہیں لگتا۔ مگر کبھی چینلز پر پانچ وقت کی اذان لازم قرار دیں گے کبھی اتوار کی چھٹی منسوخ کرکے جمعہ کی چھٹی بحال کرکے کریڈٹ لیتے رہیں گے۔ موجودہ حکومت تو ویسے بھی ریاستِ مدینہ کی داعی ہے اور ریاستِ مدینہ بھی وہی جو صرف انہیں سمجھ آئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).