کچھ ذکر سر سجاد کی سُریلی بانسری کا


اُردو ادب سے وابستگی میرے کیریئر کا ایک اہم فیصلہ تھا ورنہ شاید مجھے برسوں پتہ نہ چلتا کہ انسانی سماج میں ادب، لوک ادب، کتھا کہانی اور اساطیر کا کیا کردار ہے۔ انگریزی میڈیم بے شک مجھے اِس معاشرے میں زیادہ اہم بنادیتا لیکن میں اپنی مٹی اور اس میں گندھی ماضی کی خوشبو سے محروم رہتی مجھے ان کتابوں کے خشک اور غیر رومانوی موضوعات نے اپنی اصل کی طرف پلٹنے اور زندگی کو ایک اور زاویہ سے دیکھنے کا موقع دیا۔ میں اپنے والدین اساتذہ اور دوستوں کی ممنون ہوں اور یہ شکر مجھ پہ واجب ہے۔

سر سجاد نعیم ہمارے شفیق استاد ہیں۔ ان کے اندر چھپی نانی اماں جب سے کہانیاں سنانے لگی ہے ان کا ایک اور روپ سامنے آیا ہے۔ وہ اپنی کتاب کے دیباچے میں لوک ورثہ اور لوک کہانیوں کو اپنی سیاسی سماجی و نفسیاتی تاریخ کہتے ہیں اِس خیال کہ لوک کہانیاں خیالی بے مقصد اور مافوق الفطرت ہوتی ہیں کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں یہ کہانیاں ہمیں ان لوگوں کی سوچ ان کے ادبی رحجانات ان کے خیالات اور رسم و رواج رہن سہن اور خوف و خدشات کے بارے میں بتاتی ہیں۔

سر سجاد کے بقول، لوک ادب سارے انسانوں کا ادب ہے یہ کہانیاں سب قوموں میں گھومتی پھرتی ہم تک پہنچتی ہیں، بادشاہ، بڑھیا شہزادہ لکڑہارا وزیر اور جن پریاں ان کہانیوں کے مشترکہ کردار ہیں۔ اکثر کہانیاں انھی کرداروں کے گرد چکر لگاتی ہیں ان کرداروں کے ساتھ کچھ پرندے اور جانور بھی ان کہانیوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ مثلاً کبوتر باز کوا چڑیا ہاتھی اور کچھ طلسمی پرندے۔ البتہ بقول سر سجاد علامتی سطح پر پرندوں کی خیر و شر کی فطرتی عادات ان خطوں کے اعتبار سے مختلف ہیں۔

سر سجاد نعیم نے اپنی اس کتاب میں کہانیوں کا انتخاب بھی ایسا ہے۔ جس سے مختلف علاقوں کے ادبی رحجان کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کے اس انتخاب میں شامل کہانیاں اس کا ثبوت ہیں، اگرچہ یہ چند کہانیاں ہیں لیکن ان کے مطالعہ سے قاری مختلف معاشروں کی روایت اور مزاج سے آگاہ ہوتا ہے اس زمانے کے کردار اس کے سامنے آتے ہیں۔ انھوں نے اس کتاب میں، کسان اور دھوبی، گیدڑ اور گوہ، لنگڑی بطخیں، ہاتھی اور شیر نے شرط لگائی، عظیم الشان گنتی، طلسمی پرندہ، چوروں کا سردار اور ایک تھا بادشاہ وغیرہ شامل کی ہیں یہ انتخاب علاقوں اور قوموں کے حوالے سے اہم ہے کیونکہ اس سے مختلف علاقوں اور اقوام کی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے۔

اسی طرح جانوروں کی کہانیوں میں بھی ہمارے لیے کمال کا سبق پوشیدہ ہے گیدڑ اور گوہ کی کہانی میں جب دونوں اپنی بقا کی جنگ میں تھک جاتے ہیں تو گوہ چاہت کا جال پھینک کر گیدڑ کو شکست دے دیتی ہے اور پھر گانا گاتی ہے۔ راجا واجا نہیں ہے بدھو گیدڑ ہے آیا۔ ان کہانیوں میں بوڑھوں بچوں بادشاہوں اور جانوروں کے تذکرے ان کی سب عادات کے ساتھ ملتے ہیں بادشاہوں اور رعایا کے مزاج کا ذکر ہوتا ہے کہیں کہیں سماجی المیے اور پسندیدگیوں کا حوالہ بھی ملتا ہے۔

سر سجاد کی لوک ادب سے اور داستانوں سے دلچسپی نئی نہیں وہ اپنے گاؤں سے ہی ادب خاص طور پہ لوک ادب سے وابستگی لے کر آئے۔ یونیورسٹی میں ان کا ایم فل کا مقالہ، جنوبی پنجاب میں چناب کے کنارے پروان چڑھنے والی لوک داستانوں پہ تھا ان کی یہی دلچسپی اس کتاب کی اشاعت کا سبب بنی اس کتاب میں 23 کہانیاں شامل ہیں اور کہانی کا نام ایران کی ایک لوک داستاں، سریلی بانسری ”سے لیا گیا ہے جو ایک غریب بے اولاد میاں بیوی کی کہانی ہے۔

جو اولاد کے حصول کی تڑپ میں دربدری سے گزرتے ہیں۔ اس کتاب ”سریلی بانسری“ کو دستک پبلی کیشنز نے مناسب کاغذ اور بہت مناسب قیمت کے ساتھ شائع کیا ہے۔ شاگردوں کے لیے تو مفت میں دستیاب ہے لیکن سر، مفت کا اعلان نہیں کیا کرتے کہ شاگردوں کی تعداد زیادہ ہے اور ناشر نے کنجوسی کی انھیں گنے چنے نسخہ جات بھیجے، جس کا ازالہ لوک ادب اور لوک کہانیوں سے دلچسپی رکھنے والے 200 روپے کے معمولی خرچ سے کر سکتے ہیں۔ لوک ادب کے ارتقا اءاور سر پرستی کے لیے سر سجاد کی بے چینی کا یہ کتاب فقط سنگِ میل ہے وہ لوک ادب اور لوک ورثہ کے لیے سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ ان کی اس سنجیدگی کی بڑی گواہی سریلی بانسری ہے جو بصورت کتاب مجھ جیسے کئی قلم و کتاب سے وابستگان کو لوک ادب سے آشنا کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).