بلوچستان میں تعلیمی نظام: عطائیت کے نرغے میں


بلوچستان سے غربت افلاس و احساس محرومی کے خاتمے کا اگرچہ بہترین نسخہ تعلیم کا فروغ ہے لیکن گاؤں کے یونانی طبیب ایسے بطور علاج نسخے تحریر کرنے سے گھبراتے ہیں۔ کیونکہ چالاک طبیب سمجھتا ہے کہ اگر وہ مریض کی صحیح تشخیص کرے گا تو کل گاؤں کا صحت مند نوجوان اس کے مقابلے میں ڈاکٹر بن کر ان کو آبا و اجداد سے ورثے میں ملی طب کی دکان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کرنے اور دوسرے روزگار کی تلاش کی راہ پر ڈال دے گا اور وہ اور ان کی آنے والی نسلیں لفظ حکیم صاحب سے بھی محروم ہوجائیں گے۔

گاؤں میں یونانی علاج کی جگہ جدید طبی علاج لے لیں گے۔ جدید ہسپتال قائم ہوں گے اور اس کا بوسیدہ دواخانہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا عمر کے آخری حصے میں موجود طبیب خود تو بے روزگار ہو جائے گا ساتھ ہی ان کی آئندہ آنے والی نسل جن کو یہ طبی دواخانہ انہوں نے وراثت میں دینا ہے کو اپنا آسان ترین و منافع بخش پیشہ حکیمی بھی بدلنا ہوگا۔ اور نا خواندہ طبیب اور خاندان کے دیگر افراد کو محنت مزدوری کی عادت بھی نہیں ہے۔ اس لئے وہ سوچ چکا ہے کہ پورے گاؤں کو تعلیمی کمزوری کا شکار کرکے ذہنی بیمار وہ اپنا غلام رکھنا ہے یوں اس کی آنے والی نسلیں بھی گاؤں کی طبیب ہوں گی۔

بلوچستان حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ سکینڈری ایجوکیشن بلوچستان میں ایس ایس ٹی جو کہ گریڈ 17 کے 1266 پوسٹوں پر بلوچستان کے تمام اضلاع میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی ہوگی اور مخصوص ڈگری والے نوجوانوں کو ٹیچرز بھرتی کیا جائے گا۔ یعنی ایس ایس ٹی کا نام تبدیل کرکے منصوبے کو ایجوکیٹرز کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے لئے تعلیم امور پر کم عبور رکھنے والے مشیر تعلیم بلوچستان اور ان کے محکمہ نے بھرتی کا طریقہ کار کچھ یوں وضع کیا ہے جس نوجوان نے ایم اے چاہیے پرائیویٹ یا ریگولر امتحان اچھے نمبر سے پاس کیا ہو اور نمبر زیادہ ہو تو اس کو ٹیچر بھرتی کیا جائے گا۔

کسی بھی امیداور کو ٹیسٹ انٹرویوز کے بغیر میرٹ لسٹ خالصتا امتحان میں حاصل کردہ سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جائے گا اور امیدواروں کی لسٹ فوری طور پر بغیر انٹرویو کے مرتب کردی جائے گی جس ضلع میں ایم اے، ایم اے سی امیدوار دستیاب نہ ہوں گے ان کی جگہ بی اے، بی ایس سی امیدوار لیے جائیں گے۔ بلوچستان سے باہر رہنے والے لوگوں کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہاں پر اگر آپ ڈگری کی حصول مخصوص اس قدر ہیں کہ آپ کی جیب میں کسی بھی امتحان کی فیس کی ادائیگی اور امتحانی ہال پر تعینات چوکیدار کی مٹھی گرم کرنے کے لئے پیسے کی موجودگی لازمی ہے تو آپ اچھے نمبروں سے پاس ہوسکتے ہیں۔

اس بھرتی کے عمل میں جہاں پہلے سے تباہ حال تعلیم کا شعبہ اپنی آخری ہچکیاں لے کررہا ہے وہیں پے تدفین کے لئے یہ بھرتی کارآمد ثابت ہوگی۔ اس بھرتی کے عمل میں پرائیویٹ طور پر امتحان دینے والوں اور باقاعدہ طور پر زیر تعلیم امیدواروں میں تفریق ختم کرکے گھوڑے اور گدھے کو ایک نظر سے دیکھنے کے مترادف اقدام ہیں۔ اس میں دوسری متنازعہ بات یہ ہے کہ اس کی تعیناتی کمیٹی غیر جانبدار اور آزاد نہیں ہے۔ یعنی ضلع میں ڈپٹی کمشنر کمیٹی کا چیئرمین، متلعقہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر سیکرٹری جبکہ ڈسٹرکٹ افسر ایجوکیشن فیمیل، ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ افسر، ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر فیمل و میل بطور ممبران ہوں گے۔

یہ بات تو روز اول کی طرح عیاں ہے کہ تمام اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کی تعیناتی وہاں کے منتخب عوامی نمائندوں کی منشا سے صوبائی حکومت نے کی ہے بالکل اسی طرح ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر و دیگر کی تعیناتی مشیر تعلیم کی منشا سے ہوئی ہے۔ حکومت کے واضح کردہ رولز کے مطابق ایس ایس ٹی کی پوسٹ پر بھرتی کے لئے امیدوار کا ماسٹر ڈگری اور جمع بی ایڈ ہونا لازمی ہے اس کے بغیر اس پوسٹ کے لئے کوئی اہل نہیں ہے اور یہ بھرتی بلوچستان سروس کمیشن کے ذریعے کرنا ہوتا ہے نہ کہ جس کے امتحان میں نمبر زیادہ ہو اس کو بھرتی کردیا جائے۔

یہ اقدام سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ بلوچستان میں بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جہنوں نے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی لیکن انہوں نے کبھی یورنیورسٹی تو دور کبھی کالج بھی نہیں دیکھا ہے انہوں نے پرائیویٹ امتحانات دیے ہیں اگر آپ نے انا کی خاطر یہ بھرتی کرنی بھی ہے تو بلوچستان میں این ٹی ایس کے پاس اساتذہ جو گزشتہ دو سال سے احتجاج پر ہیں ان کو بھرتی کیا جائے کم ازکم انھوں نے تحریری ٹیسٹ پاس تو کیا ہے۔ اگر آپ کی سوچ یہی ہے کہ وقتی طور پر مسئلے کا آپ حل نکال رہے ہیں لیکن یہ جھوٹ ہے اس کو مستقل کر دیا جائے گا۔

جونیئر ایس ایس ٹی کی براہ راست تعیناتی کرنا نہ صرف خلاف قانون ہے بلکہ تعلیم کا صوبے سے خاتمہ کرنے کی ایک دانستہ کوشش ہے۔ جو کہ 1973 کے بعد شاید بلوچستان میں واقع ہونے والے دیگر حالات و واقعات سے زیادہ نقصان دہ ہوگا۔ جو نقصان تعلیمی میدان میں موجودہ سیکنڈری ایجوکیشن کی ٹیم پہنچانے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ حالات واقعات پر نظر رکھے ہوئے لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے انتہائی پریشان کن عمل کے طور پر اس کو لینا چاہیے ورنہ صوبے کو تباہی اور بربادی کی حکومتی سرپرستی میں جاری یہ مشن صوبے کو تباہی کی جانب لے جانے میں کارآمد ثابت ہوگی۔

جس کے بعد سوائے ندامت اور افسوس کے ہمارے پاس کچھ نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).