فلم اور ڈرامے میں زوال کا ذمہ دار کون؟


اُردو زبان میں نِت نئے موضوعات پر لکھنے والوں کی بہت کمی ہے۔ بعض موضوع عموماََ سائنسی معلومات و معاملات‘ جن کا ہماری زندگی سے لمحہ بہ لمحہ واسطہ ہے‘ اُن پر کچھ لکھا ہی نہیں جاتا؛ مثلا: حیاتیات‘ طبیعات‘ ارضیات وغیرہ؛ گو کہ شاعری‘ ادب‘ تنقید‘ افسانہ میں پھر کچھ موضوع چھیڑے گئے ہیں‘ لیکن فلم اور ٹی وی سیریز جیسے مضبوط‘ موثر میڈیم کا اس طرح استعمال نہیں کیا گیا‘ جس طرح باقی دُنیا میں ہوا۔

ہمارے یہاں کچھ عناصر شو بِز کی چاہے جتنی مخالفت کر لیں‘ اس میں کوئی شبہ نہیں‘ کِہ فلم اور ٹی وی ڈرامے کے عوام پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فلم اور ٹی وی پروگرام عوام کے سماجی مشاغل اور بود و باش پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ نوجوان اسکرین پر جلوا گر ہونے والوں کی تصویریں من میں سمائے رکھتے ہیں‘ اور ان کی درون خانہ سرگرمیوں کے بارے میں ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں‘ جاننا چاہتے ہیں۔

زندگی کی دیگر ضروریات کی طرح فنون بھی ہماری ضرورت میں سے ایک ہے۔ فن کار ایک سے زیادہ زندگیاں تو جیتا ہی ہے‘ فن کی قدر کرنے والا بھی فن سے مستفید ہوتے زندگی کا حظ اُٹھاتا ہے۔ دیگر فنون کی نسبت فلم اور ٹی وی پروگرام کی پہنچ اُس شخص تک بھی ہے‘ جو ان پڑھ ہے‘ یا کم تعلیم یافتہ ہے‘ متمول نہیں ہے۔ استاذی شکیل عادل زادہ کا قول ہے‘ ’’ناخواندگان کی تشفی فلم سے ہو جاتی ہے‘‘۔

پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال کی بڑی وجوہ میں‘ موضوعات کی کمی‘ اور ایک ہی کہانی کو بار بار فلمائے جانا جیسے گناہ کبیرہ رہے ہیں۔ کہا جاتا تھا‘ چوں کہ فلم انڈسٹری میں پڑھے لکھے افراد کی کمی ہے‘ تو اس انحطاط کی وجہ وہ ہیں۔ جب کہ آج ٹیلی ویژن سیریز کو دیکھیں‘ اس یک سانیت کی شکار ٹی وی اسکرین کے پیچھے کہنے کو پڑھے لکھوں افراد کا اجارہ ہے۔ موضوعات کی کمی یہاں بھی دکھائی دیتی ہے۔ آج کل کا ٹی وی ڈراما گھریلو مسائل سے باہر نکل کے نہیں دیتا۔ اس کا الزام لکھنے والوں کو دیا جاتا ہے‘ حالاں کہ حقیقت یہ ہے‘ کہ اس کے ذمہ دار ٹیلی ویژن چینلز کے کانٹینٹ ٹیمیں ہیں‘ جن کی ساری محنت آئیڈیے نقل کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔ رائٹر کو بتا دیا جاتا ہے‘ کہ وہ گھریلو مسائل سے ہٹ کے کچھ لکھنا چاہتا ہے‘ تو اس کی منظوری کے لیے ہمارے پاس مت بھیجے۔ ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن انڈسٹری بھِیڑ چال کی شکار ہے۔ بھِیڑ چال میں تیار کیے پروگرام وقتی طور پہ تو سہارا دیتے ہیں‘ لیکن کہیں بھِیڑ ہی میں گم ہو کے رہ جاتے ہیں۔

دس بارہ سال پہلے جب بھارتی سینما عروج پر دکھائی دیتا تھا‘ تو ناقدین نے نے متنبہ کیا کہ یہ فلم انڈسٹری تباہی کی طرف جا رہی ہے؛ ایک طرف ناقدین فلموں پر اعتراضات کر رہے تھے اور دوسری طرف بالی وُڈ کی ہر دوسری فلم سپر ہٹ ثابت ہو رہی تھی۔ ناقدین کا کہنا تھا‘ کِہ ہماری فلمیں یک سانیت کا شکار ہیں‘ یک سانیت تنزلی کا باعث ہو گی۔ ایسا نہیں ہوا کہ ان ناقدین کی باتوں کو یک سر جھٹلا دیا گیا‘ بل کہ ذہین فلم سازوں نے ’’رنگ دے بسنتی‘‘، ’’منا بھائی ایم بی بی ایس‘‘، ’’لگے رہو منا بھائی‘‘، ’’تارے زمیں پر‘‘ جیسی فلمیں بنا کر ثابت کیا‘ کہ وہ باقیوں سے کچھ الگ بھی کر کے کام یابی کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔ ادھر فلم کے ناقدین نے بھی ان فلم سازوں کی ایسی کاوش کو کھل کے سراہا۔ ’’تھری ایڈیٹس‘‘، ’’پی کے‘‘ جیسی کمرشل فلموں کے ذریعے نا صرف ناظرین کے ذوق کو تسکین پہنچائی‘ ان کو تفریح فراہم کی‘ بل کہ معاشرتی خرابیوں کی نشان دہی بھی کی گئی۔

یہاں یہ بحث کی جا سکتی ہے‘ کہ کیا پاکستانی فلم انڈسٹری کو ایسے ناقدین میسر تھے‘ جو پیش بینی کرتے‘ فلم سازوں کو قائل کر پاتے‘ کہ وہ جس سمت سفر کر رہے ہیں‘ وہ تباہی کا دہانہ ہے؟ کیا آج ہمارے ٹیلے ویژن پروگرام کو ایسے ناقدین میسر ہیں‘ جو چینل کے مالکان اور چیفس کو قائل کر سکیں‘ کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں؟ ناقد کا بنیادی کام ہی یہ ہے‘ کہ غلطی کی نشان دہی کرے‘ اور دُرست سمت دکھائے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے‘ ہمیں ایسے ناقد بھی دست یاب نہیں‘ جن کی آواز میں دَم ہو۔

ایک ناقد‘ ایک استاد کا سا کردار ادا کرتا ہے۔ جہاں سرزنش کی ضرورت ہو‘ سرزنش؛ جہاں رہ نمائی کا مقام ہو‘ وہاں رہ نمائی؛ جہاں تھپکی دینے باری ہو‘ تھپکی دیتا ہے۔ تنقید برائے تنقید کے کوئی معنی نہیں۔ جو ادارے لگے بندھے انداز میں پروگرام تیار کر رہے ہیں‘ انھی پر انگلیاں اٹھاتے رہنے کے بہ جائے‘ اس ادارے کے پروگرام کی حوصلہ افزائی کریں‘ جو ایسے پروگرام بنانے کی کوشش کرتے ہیں‘ جن کی انڈسسٹری کو ضرورت ہے‘ جو انڈسٹری کے فروغ کا باعث ہو سکیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran