مستقبل بینی


انسانی ذہن بہت پیچیدہ ہے۔ یہ ایک طرف دماغ میں خارج ہونے والے مختلف کیمیائی مادوں اور ان کے باہمی تعاملات سے پیدا ہونے والے جذبات، احساسات اور خیالات اور دوسری طرف ارد گرد پھیلے حالات و واقعات یعنی معروض سے تسلسل کے ساتھ ملنے والے پیغامات کے باہمی ملاپ سے تشکیل پاتا ہے۔ گویا ہمارے ہر خواب، خیال اور عمل کے پس منظر میں ارب ہا نیورانوں کا ایک دیوانہ وار رقص ہوتا ہے۔

ایک انسانی سماج بنیادی طور پر لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں پیچیدہ تر انسانی ازہان کا اجتماع ہوتا ہے جو ضرورت کے دھاگوں سے ایک دوسرے سے بندھے ہوتے ہیں۔ کہیں یہ ضرورت کے رشتے ٹکراؤ کی شکل اختیار کرتے ہیں تو کہیں باھمی تعاون کا سبب بنتے ہیں۔ اسی ٹکراؤ اور تعاون کے امتزاج سے اجتماعی انسانی رویے تشکیل پاتے ہیں۔ چونکہ ابھی تک ایک انسانی ذہن کی گتھیوں کوبھی مکمل طور پہ سمجھنا اور سلجھانا ممکن نہیں ہو پایا اس لیے اجتماعی انسانی رویوں کی سمجھ بوجھ اور مختلف حالات میں سماجی رد عمل کی مختلف جہتوں کو سمجھنا اور ان کے اسباب کو جانچنا بھی سماجی علوم کے ماہرین کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر ان تمام تر مشکلات کے باوصف انسانی زندگی میں بہتری کی خواہش نے سماجی علوم میں جذبہ تحقیق کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

ازمنہ قدیم سے لے کر آج تک دانشوروں، مفکروں اور فلسفیوں نے اسی جذبے کے تحت انسان کے سماجی رویوں کے علت و اسباب جاننے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ انہی کوششوں کا ثمر ہے کہ انسانی سماج کا سفر بہتری کی طرف رواں دواں رہا اور آج انسان برابری، مساوات، جمہوریت، آزادی اور امن کے جن تصورات سے روشناس ہوا یہ اجتماعی انسانی شعور کے ارتقا میں ان ہی اہل علم و دانش کی فکری و عملی جہد مسلسل کا نتیجہ ہے۔ ایک بہتر سے بہتر مستقبل کی تلاش و تشکیل کے لیے اپنے معروض یا موجودہ حالت کو سمجھنا بہت ضروری ہے اسی طرح اپنے معروض سے آگاہی اپنے ماضی یعنی تاریخ کو سمجھے بنا ممکن نہیں۔ گویا ہم اپنی تاریخ کے آئینے میں اپنا حال دیکھ سکتے ہیں اور حال کی آگاہی سے اپنے مستقبل کی راہوں کا تعین کر سکتے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے حال کو کیسے سمجھا جائے؟ یہ سوال اس لیے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے کہ بنا حال کو سمجھے مستقبل کی تشکیل نا ممکن ہو جاتی ہے۔ جو قومیں اپنے معروض کا درست تجزیہ کرنے کی اہلیت سے محروم ہوتی ہیں ان کے مستقبل کے فیصلے بھی ان کے اپنے ہاتھوں میں نہیں رہتے۔ ان سے نہ صرف ان کا حال چھن جاتا ہے بلکہ ان کی تاریخ بھی چھن جاتی ہے۔ تاریخ جو نہ صرف قوموں بلکہ افراد کی شناخت کا تعین بھی کرتی ہے۔ جب انسان اپنے ماضی، حال اور مستقبل سے بے بہرہ ہو جائے تو پاگل پن، یاسیت پسندی، جنون اور بے بسی جنم لیتے ہیں۔ یہی حال ایسے سماجوں کا بھی ہوتا ہے جو اپنے معروض کا درست تجزیہ کرنے میں ناکام اور اپنے ماضی کو الف لیلہ کی داستان بنا لیتے ہیں مستقبل کی لگام بھی پھر ان کے ہاتھوں میں نہیں رہتی۔

سماجی سائنسی علوم کے استقبالی پہلو میں دلچسپی رکھنے والے محقیقین سہیل عنایت اللہ کے نام سے یقینناؑ آگاہ ہوں گے۔ سہیل ایک پاکستانی نژاد امریکی ہیں جو امریکہ کی ایک جامعہ میں شعبہء سیاسیات سے وابستہ ہیں۔ معروض کے تجزیے اور متبادل مستقبل کی تشکیل کے لیے سہیل کا ”علتی تہوں کے تجزیے کا نظریہ“ ایک بہت دلچسپ طریقہ کار ہے جو اپنے معروض کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ بقول سہیل عنایت اللہ ہمارا معروض تہہ در تہہ حقائق پر مشتمل ہوتا ہے جس کی عام طور پر ہم صرف سطحی حد تک سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ اپنے معروض کے درست تجزیے کے لیے اس کی تمام تہوں کے اندر جھانک کر مسائل کی بنیاد کو سمجھنا ضروری ہے۔ متبادل مستقبل کی تشکیل اسی وقت ممکن ہے جب نیا معروض کھڑا کرنے کے لیے اس بنیاد کو بدلا جائے گا جس پر موجودہ معروض کا پورا ڈہانچہ کھڑا ہوا ہے۔

سہیل عنایت اللہ کے پورے نظریے کو اگر ایک جملے میں بند کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ یہ ہو سکتا ہے کہ سماج کے معروض کی سطحی شکل ایک خاص معاشی، سیاسی اور سماجی نظام کا نتیجہ ہوتی ہے یہ نظام خود کو جائز قرار دینے کی لیے مخصوص موضوعات اور مباحث کو جنم دیتا ہے اور ان مباحث کی بنیاد ایک ایسے مقدس مفروضے پہ رکھی جاتی ہے جس کا تقدس اندھی تقلید کا متقاضی ہوتا ہے اور جس پر عمومی طور پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ یہ جملہ یہاں رک کر ایک بار پھر پڑھنے اور غور کرنے کا تقاضا کر رہا ہے۔

اب آئیے ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک جاگیردارانہ سماج میں انسانوں کی طبقاتی تقسیم اور ایک طبقے کے وسائل پہ قبضے کہ نتیجے میں اکثریتی کسان طبقے پہ روا رکھا جانے والا ظلم حقیقت کا سطحی چہرہ ہے۔ جس کی وجہ وہ نظام ہے جو انسانوں کی ایسی تقسیم پہ مبنی ہے جس میں ایک طبقہ ذرائع پیداوار پر قبضے کی وجہ سے سیاسی و سماجی برتری حاصل کر لیتا ہے۔ اب یہ بالادست طبقہ اپنی بالا دستی کو قائم رکھنے لئے ایسے مباحث کو فروغ دیتا ہے جن میں تقدیر، فطرت کے فیصلوں کے مقابل انسانی بے بسی اوراپنے حال پہ صبر و شکر کی تلقین ہوتی ہے۔

یہ سارے مباحث ’خدائی تقسیم‘ کے مقدس مفروضے پہ قائم ہوتے ہیں۔ پس کسی بھی سماج میں ہونے والے مقبول مباحث کو اگر اس نظر سے دیکھا جائے کہ آخر ان مباحث سے کسکی طاقت کو جواز مل رہا ہے اور کس کی آواز چھینی جا رہی ہے تو اپنے معروض کی معاشی، سیاسی اور سماجی حقیقت سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک نئے سماج کی تشکیل کی راہیں بھی اسی دانش سے نکل سکتی ہیں۔

کبھی سوچتا ہوں میں
یہ جو خواب دیکھتے ہیں ہم
کیا سچ میں یہ خواب ہمارے ہیں
کیا ہماری خواہشوں، ہماری ضرورتوں کا عکس ہیں یہ
یا ہماری لوح شعور پہ کسی اور کا ثبت کیا ہوا نقش ہیں یہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).