جموں کے ڈوگرے، کشمیر اور بلتستان!


گلگت بلتستان کو تنازعہ کشمیر سے ملا کر بہتر ( 72 ) سال سے لٹکانے کا انتظام کرجانے والے ”ڈوگرے“ سکھ نہیں بلکہ ہندو راجپوت فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی اصل بادشاہت کشمیر پر نہیں بلکہ ”جموں“ پر تھی۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ”تنازعہ کشمیر“ پر بڑھ چڑھ کر بولنے اور لکھنے والے خصوصاً علاقہ گلگت بلتستان کو کشمیر کا تاریخی حصہ ”قرار دینے والے اس حقیقت کو کھول کر نہیں بتاتے کہ خود“ علاقہ کشمیر ”کی سیاسی حیثیت کیا تھی اور یہاں کیا سے کیا ہوتا رہا۔

گزشتہ دو سو سالوں کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ سمجھنا بہت آسان سی بات ہے کہ کشمیر کا گلگت بلتستان تو کیا خود جموں بھی حصہ نہیں رہا سوائے اس کے کہ جموں کے مہاراجہ گلاب سنگھ نے اسے انگریزوں کی خوشامد اور بھاری رقم ادا کرکے باسیوں سمیت خرید لیا تھا اور اگلے سو سال تک اس علاقے کو جاگیر بنا کر یہاں کی عوام کو اپنی نسلوں کی رعایا بنائے رکھا۔ انگریز افسر فریڈرک ڈریو سن 1877 میں لکھی اپنی کتاب The Northern Barrier Of ”India“ میں رقم طراز ہیں کہ ”ڈوگرہ“ قبیلے سے تعلق رکھنے والا راجہ ”رنجیت دیو“ جموں کا انصاف پسند حکمران تھا۔

اُس وقت جموں کے پڑوس میں پنجاب (تخت لاہور) پر سکھوں کی حکمرانی تھی۔ رنجیت دیو کی وفات کے بعد پنجاب کے جنگ جُو سکھوں نے جموں ریاست کو کئی بار تاراج کیا۔ برٹش انڈیا سے قبل پنجاب کا سکھ مہاراجہ ”رنجیت سنگھ“ لاہور تخت کا والی بنا اس دوران جموں، پونچھ اور رام نگر کے علاقوں پر ہندو راجہ ”رنجیت دیو“ کے پوتے ”گلاب سنگھ“ اور اس کے دو جوان بھائیوں کی حکمرانی تھی۔ تخت لاہور نے ان علاقوں پر نظریں گاڑ دیں مگر تینوں بھائی سکھوں کے حملے سے قبل ہی لاہور دربار میں حاضر ہوکر رنجیت سنگھ کے فوج میں سپاہی بھرتی ہوگئے۔

سپاہی اور سوار سے شروع ہونیوالی خدمات بڑھتے بڑھتے بطور ہیڈ دربان اور آرمی دستے کی قیادت تک پہنچ گئیں۔ اور تینوں (ہندو) ڈوگرہ بھائی کچھ عرصے بعد سکھ حکمران رنجیت سنگھ کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس طرح قریب 1820 میں تینوں بھائیوں کو رنجیت سنگھ نے انہی کے پرانے علاقوں (جموں، رام نگر اور پونچھ) میں اپنی سلطنت (تخت لاہور) کے زیر نگرانی راجگیری سونپ دیں۔ اس وقت تک کشمیر پر افغانوں کا قبضہ تھا جسے رنجیت سنگھ نے سن 1819 میں یلغار کرکے اپنی سلطنت (تخت لاہور) میں شامل کرلیا۔

کشمیر کے پنجاب سلطنت میں شامل ہونے کے قریب ڈیڑھ دہائی بعد رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد سے تخت لاہور پر سکھوں کی گرفت کمزور پڑتی گئی اور سن 1845 میں انگریزوں نے اس پوری سلطنت کو حاصل کرلیا۔ جموں کے ہندو راجپوت راجہ گلاب سنگھ انگریزوں کا بھی معتمد تھا اور انگریز افسر (کرنل) ہنری لارینس کے ساتھ ان کی اچھی دوستی قائم ہوچکی تھی۔ اس طرح گلاب سنگھ اپنی سلطنت جموں کو انگریزوں کی یلغار سے بچانے کے ساتھ ساتھ (سن 1846 میں ) کشمیر کے علاقوں کو بھی خطیر رقم کے عوض انگریزوں سے خریدنے میں کامیاب ہوگیا۔

یعنی پچیس سال قبل جو ”کشمیر“ افغانوں کے زیر تسلط تھا اسے کم و بیش پچیس سال تک پنجاب کے سکھوں نے اپنی سلطنت میں شامل کیے رکھا، سکھوں سے انگریزوں نے حکومت چھین لی اور ان کے قبضے میں موجود کشمیر کو اپنے ٹاوٹ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر ڈالا۔ جبکہ والیِ جموں گلاب سنگھ اس سے قبل (سن 1840 تک) بلتستان اور لداخ پر اپنے سپہ سالار زور آور سنگھ کے ذریعے قابض ہوچکا تھا۔ یعنی جموں سلطنت میں کشمیر کے شامل ہونے سے کئی سال قبل بلتستان اور لداخ پر ان کی (جموں کے ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ) کی عملدرداری قائم ہوچکی تھی۔

1857 میں گلاب سنگھ مر گیا اور اس کا 27 سالہ بیٹا رنبیر سنگھ ریاست جموں بشمول کشمیر، لداخ اور بلتستان کا مہاراجہ بن گیا۔ متذکرہ انگریز رائٹر فریڈرک ڈریو دس سال تک رنبیر سنگھ کی حکومت میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے جس میں لداخ کی گورنری بھی شامل ہے۔ اس دوران وہ دو مرتبہ لداخ سمیت گلگت اور بلتستان کے علاقوں کے دورے پر آئے اور قریب سے ان خطوں کا مشاہدہ کیا۔

انگریز لکھاری کے بقول لداخ کا مقامی راجہ جموں کے راجہ گلاب سنگھ کی عملداری میں آنے سے قبل تبت کے گرینڈ لامہ کو خراج دیا کرتا تھا۔ جبکہ بلتستان میں مقامی چھوٹی چھوٹی حکومتیں تھیں جو کہ سکردو، روندو، شگر کرتخشہ اور خپلو پر راجگیری کرتے تھے۔ جموں کے ڈوگروں کے بلتستان اور لداخ پر یلغار نے جہاں مقامی خودمختار حکومتوں کو پسپا کردیا وہاں اس کے بعد سے لداخ اور تبت کی جانب پھیلتی دین اسلام کی اشاعت بھی رک گئی۔ اس وقت تک لداخ اور ملحقہ علاقوں میں بدھ مت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کا سلسلہ بہت روانی کے ساتھ جاری تھا۔

تقسیم ہند تک ڈوگروں کی حکومت انگریزوں کی رحم و کرم پر رہی اور جب انگریز برصغیر کو چھوڑ کرجانے لگے تو ڈوگروں کا آخری حکمران سردار ہری سنگھ شاید اپنے آبإ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علاقہ جموں کے ساتھ کشمیر، لداخ اور بلتستان پر قابض رہنا چاہتے تھے۔ مگر انگریز اس کی گارنٹی دے سکے نا ہی وہ پاکستان اور انڈیا کی نئی بننے والی حکومتوں سے اس بابت بروقت اقدام کروانے کی پوزیشن میں تھے۔ یوں آزادی ہند کے بعد بھی یہ پورا خطہ دو ریاستوں کے بیج متنازعہ اور بہتر سال سے تصفیہ طلب ایشو بنا ہوا ہے جسے اقوام متحدہ بھی اب تک حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).