مسئلہ ڈیم نہیں، ڈیم فول بنانے کا ہے


سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثا ر نے کہا ہے کہ ڈیم فنڈ کسی ڈیم کی تعمیر کے لئے نہیں بلکہ محض آگاہی کے لئے تھا جس کے بعدوہ تمام خدشات ، تحفظات او راعتراضات درست ثابت ہو گئے ہیں جو میاں صاحب کے ڈیم فنڈ کے بارے میں ظاہر کئے جا رہے تھے۔ ہماری تاریخ ثابت کرتی ہے کہ آپ چندوں، عطیات اور صدقات سے تعلیمی ادارے اور ہسپتال تو بنا سکتے ہیں جن کی تعمیر کا بجٹ چند لاکھ، کروڑ یاچند ارب روپے سکتا ہے مگر ان سے نہ تو کئی ہزار ارب روپوں کے قرضے اتارے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ڈیم تعمیر کئے جا سکتے ہیں لہذا ایسے تمام دعوے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ اور میڈیا سٹنٹس کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔کیا یہ دلچسپ امر نہیں ہے کہ سابق چیف جسٹس نے اپنے بااختیار عہدے کو استعما ل کرتے ہوئے جو نو سے دس ارب روپے جمع کئے اس سے کہیں زیادہ کا سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا پر ائم ٹائم خرچ کر لیا گیا جو پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق تیرہ ارب روپوں کے لگ بھگ ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ اگر یہ کوئی کاروبار بھی تھا توسراسر گھاٹے کا تھا۔
گھاٹا صرف کاروبار کا ہی نہیں ہوتا، اداروں کی عظمت ، وقار اور اعتماد کا بھی ہوتا ہے۔ ہم پاکستان میں بیٹھ کے براہ راست تنقید نہیں کر سکتے اور اداروں پر کرنی بھی نہیں چاہئے مگر کیا آپ اپنے ادارے کی کارکردگی اور مقام بارے متعلقہ بین الاقوامی اداروں کی آرا اور رینکنگ کو بھی نظر انداز کر سکتے ہیں۔ بات اداروں کی نہیں اشخاص کی ہیں جوخود کواپنے علاوہ دوسروں کے ہر کام کا ماہر بنا کے پیش کرتے ہیں۔ موصوف نے اپنے دور میں عدلیہ میں لگے ہوئے مقدمات کے انبار میں اضافہ کیا اور خود وقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے بریکنگ نیوز کا کھیل کھیلتے اور ڈرے سہمے میڈیا سے واہ واہ کے ا نبار سمیٹتے رہے۔ وقت نے بتایا کہ جو انہیں وقت کا مسیحا ثابت کر رہے تھے، ان کے ہاتھ سے ہتھوڑا رخصت ہوتے ہی ان کے خلاف آرٹیکل سکس کے تحت کارروائی کا مطالبہ کرنے لگے جبکہ عزت اور وقاروہ ہوتا ہے جو طاقت ، اختیار اور عہدے کے بعد بھی حاصل رہے۔
مجھے کہنے دیجئے کہ ہم سب کو اپنا اپنا کام کرنا ہے اور اگر ہم وہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہم حقیقی معنوں میں کامیاب ہیں۔ میں نے چند روز قبل داتادربار کے علاقے میں نشئیوں کی بھرمار پر ایک پروگرام کیا جس میں خواتین بھی پولیس کے ایک خدمت مرکز کے سامنے دوسڑکوں کے درمیان میٹرو کے پل کے نیچے لیٹی ہوئی تھیں۔ ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ مجھے کیمرہ اور مائیک چھوڑ کے ان عورتوں کو نشے سے بحالی کے مراکز میں لے جانا چاہئے تھا۔ میں ہنس پڑا او رپوچھا کہ کیا یہ میرا کام ہے، میرا کام مسائل کی نشاندہی ہے۔ اس کام کے لئے اینٹی نارکوٹکس فورس موجود ہے، پولیس ہے اور ضلعی حکومت سمیت دیگر ادارے ہیںجو کروڑوںا ور اربوں روپوں کے فنڈز وصول کر رہے ہیں،مجھے اپنی اور انہیں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دینی چاہئیں۔
اس ڈیم فنڈ کے لئے خوشامدی اور جبری طور پرعطیات وصول کئے گئے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے ان کی مرضی اور منشا کے خلاف کٹوتیاں کی گئیں، عدالتی فیصلے کرتے ہوئے کسی ایک فریق کو ڈیم فنڈ میں رقم جمع کروانے پر ریلیف دینے کی باتیں بغیر کسی ڈر اور خوف کے کی گئیں بلکہ کئی معاملات میں ریلیف پہنچایا بھی گیا۔ یہاں ریلوے کے وزیر شیخ رشید احمد نے کابینہ اور اسمبلی کی منظوری کے بغیر ریلوے کے مسافروں کی ٹکٹوں پر ڈیم ٹیکس عائد کر دیا اور اس کے چیک وہ پبلک ریلیشننگ سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اپنے مخالفین کو رگڑا دلوانے کے لئے پیش اور چیف جسٹس کے ساتھ تصویریں بھی دھڑلے سے جاری کرتے رہے۔ جناب میاں ثاقب نثار ، شیخ رشید احمد سے کروڑوں روپوں کے چیک وصول کرتے ہوئے ان کے سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالتے اور اپنی سیٹ پر بیٹھ کے ان کے ساتھ بہت برا ہونے کی دھمکیاں دیتے رہے،یہ بہرحال جج کا مقام اور مرتبہ نہیں تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہر شخص قابل احترام ہے اور یہ احترام دوحوالوں سے ہے، پہلاشخصی حوالہ ہے کہ ہر کسی کو پاکستان کا شہری ہونے کی حیثیت سے آئینی اور قانونی حقوق حاصل ہیں اور دوسرا احترام بربنائے عہدہ ہے۔ ہراہم عہدے پر بیٹھی شخصیت کا احترام اس لئے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کی خدمت کر رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا بربنائے عہدہ احترام ، عہدے کے فرائض کی انجام دہی سے مشروط نہیں۔ جب آپ چیف جسٹس ہوتے ہوئے ڈیم بنانے اور خاندانی منصوبہ بندی کی مہمیں چلاتے ہیں تو یہ فرائض ہمیں آئین کی کتاب کے اس باب میں ہرگز نہیں ملتے جس میں عدلیہ کی ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ڈیم فنڈ محض آگاہی مہم قرار پایا تو کیا سرکاری ملازمین کو وہ تنخواہیں واپس کر دی جائیں گی، کیا ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیا جائے گا جن کے سٹیک ہولڈرز سے چیک وصول کئے گئے۔ چاہے وہ کتنے ہی نیک اور اعلیٰ مقصد کے نام پر کیوں نہیں تھے۔ ہمیں آئینی اور قانونی روایات بتائیے، لچھے دار باتیں نہیں، کیاہماری بسوں میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جب بہت لچھے دار باتیں کرنے والے بھنگ کے لڈو کھلاکر کام دکھا جاتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس نے کون سا اپنی جیب میں یہ پیسے ڈالے، میں ان پیسوں کی حد تک اتفاق کرسکتا ہوں جو آن دی ریکارڈ جمع کئے گئے مگر ججوں کو ذاتی اورسرکاری حیثیت میں ہرایسے کام میںملوث ہونے سے خود اعلیٰ عدالتی روایات اور قوانین روکتے ہیں جن میں رقوم کا براہ راست لین دین ہو۔
ڈیم کی تعمیر میرے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے مگر، مان لیجئے، ا س سے بھی کہیں بڑا مسئلہ ڈیم فول بنانے کا ہے۔اس وقت احتساب کے نام پر بھی ایک ایسا ہی ڈیم بنایا جا رہا ہے جس کے ساتھ فول لگانا ضروری ہے ، اگرآپ کو یقین نہیں آتا تو سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی نیب کے بنائے ہوئے دونوں مقدمات میں ہائی کورٹ کی ضمانت کا تفصیلی فیصلہ پڑھ لیجئے جو ہماری ہی عدالتوں نے جاری کیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جو حقائق ہائی کورٹ کے معزز جج حضرات کو نظرآ رہے ہیں وہ احتساب عدالت کے محترم جج کو نظر کیوں نہیں آئے اور وہ ریمانڈ پر ریمانڈ دیتے رہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت کے فیصلے میں نیب کے مقدمے کی بھد اڑنے کے علاوہ صاف پانی کیس میں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے اور مجھے پورایقین ہے کہ سابق وزیرریلویز خواجہ سعد رفیق اور خوااجہ سلمان رفیق کے بارے بھی ایسا ہی فیصلہ سامنے آئے گا ۔ یہ ثابت ہو رہا ہے کہ نواز شریف سے لے کر انجینئر قمر الالسلام تک کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کی وجہ کسی طور بھی بدعنوانی نہیں تھی۔
میںزور دے کر کہتا ہوں کہ اگر کسی نے بھی کرپشن کی ہے تو اسے قرارواقعی سزا ملنی چاہئے مگرڈیموں سے لے کر احتساب کے نام تک کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو بے وقوف نہیںبنانا چاہئے جب آپ جانتے ہوں کہ آپ کے وصولے پیسوں سے نہ تو ڈیم بن سکتا ہے اور نہ ہی یک طرفہ انتقامی کاروائیوں سے کرپشن کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔ ہم سب مانتے ہیں ملک میں پانی کا بحران ہے اور ڈیم اس ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہیں مگر میری نظر میں ڈیم بنانے سے بھی بڑا مسئلہ عوام کو ڈیم فول بنانے کا ہے جو بطور قوم ہماراوقت ضائع اور قسمت کھوٹی کر رہا ہے۔ آپ ڈیم فول بنانا بند کیجئے، بجلی کے کارخانوں اور موٹرویز کی طرح بہت سارے ڈیم بھی بن جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).