سیاست کا جغرافیہ


فی زمانہ سلطنتِ سیاست اک محیرالعقول ریاست کا روپ دھار چکی ہے۔ آئیے اس کی نوعیت، خدو خال اور لوازمات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

حدو د اربعہ : سلطنتِ سیاست کے مشرق میں اقتد ار کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر پوری آب وتاب سے موجزن ہیں جس کے ساحل پہ شاہینوں کے بسیروں کے واسطے قصرِسلطانی کے بے شمار گنبدبھی ہیں۔ مغرب میں اقتدار کی راہ میں روڑے اٹکانے والے پہاڑ اور نفرتوں کے منجمد گلیشئر ہیں۔ شمال میں بڑے بڑے ہمالے اور چھوٹے چھوٹے اڈیالے وجود رکھتے ہیں جبکہ جنوب میں مایوسیوں، دکھوں، انتقاموں اور طعن وتشنیع کے جھلستے ریگستان پھیلے ہوئے ہیں۔ جگہ جگہ وعدوں کے سبز باغات کے ساتھ ساتھ مایوسی کے کالے باغ بھی قابلِ ذکر ہیں۔ شمال مغربی کونے میں قرضوں کے کوہِ گراں اور مرکزی خطوں میں ترقی کی چٹیل ڈھلانیں ہیں۔ کہیں کہیں ڈیل اور ڈھیل کے ہرے بھرے صحت افزاء مقامات بھی ہیں۔

آب و ہوا :آب و ہوا یکساں رہنے کی خو گر نہیں ہے۔ کبھی کبھار اقتدارکی بہا ر میں باد نسیم اپنے مسحور کن اثرات لئے چلتی ہے تو کبھی شجرِ اقتدارخزاں کے موجب پت جھڑ کا شکار ہوتا ہے۔ مخاصمت، حسد، ہوس اور اناؤں کی تیز گرد آلود آندھیاں پورا سال ہی چلتی ہیں۔ سر منڈاتے ہی اولے پڑنے کا امکان بھی رہتا ہے جبکہ گالی گلوچ اوربڑھکوں کے طوفان بد تمیزی برپا ہونے کا رواج ِ عام ہے۔ الزامات اور دشنام کی آلودگی ہمہ وقت چھائی رہتی ہے۔ اس ریاست میں متعدد موسم ہیں جن میں الیکشن کا موسم، دھرنوں کے موسم، ڈھٹائی کے موسم، وعدوں کے موسم، شادیوں کے موسم، کشکول اٹھانے اور پیرونی دوروں کے موسم قابلِ ذکر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بعض خطوں پہ ”شہابِ ثاقب“ گرنے کے واقعات بھی دیکھے گئے تاہم اب ایسے خطرات معدوم ہوتے نظر آتے ہیں۔ یہاں کی ہوائیں چراغوں سے بلا کی واقفیت رکھتی ہیں۔

باشندے : سلطنتِ سیاست کے اکثر باشندے صورتِ خورشید جینے کے عادی ہیں۔ سب سے پر اسرار بندے ”آزاد“ ہیں جو ایک ہی جست میں کروڑوں کے فاصلے طے کرسکتے ہیں۔ خلائی مخلوق کے ساتھ بیت الخلائی اور غریب ترین کے ساتھ امیر ”ترین“ لازم ہیں۔ اقتدارِ اعلیٰ کی ملکیت کی تہمت عوام کے سر رہی ہے جبکہ یلغارِ اعلیٰ کا حق خلائی مخلوق کو حاصل رہا۔ ہر سیاسی راہ نما کا سیاسی ڈی این اے چند واسطوں سے کسی نہ کسی غیر سیاسی ادارے سے جا ملتا ہے۔

موروثی اور عروسی سیاست کا دور دور ہ ہے۔ یہاں بے شمار جیالے، متوالے، یوتھئیے، پٹواری اور مستری پائے جاتے ہیں کیونکہ اللہ نے ہر بڑے کے حصے کے بے وقوف پیدا کر رکھے ہیں۔ یہاں بے مہار صحافی، بے مہار مُلا، بے مہار قوم پرست، بے مہار وکلاء، بے مہار لبرل اور بے مہار لیڈر دندناتے پھرتے ہیں۔ کچھ بے مہار شوہر بھی ہیں جو سابقہ بیویوں کے زعم میں اترا کر پھرا کرتے ہیں۔ سیاست دان یو ٹرن اور علماء کرائم نو ٹرن کے قائل ہیں۔ اس ریاست کے لوگ مقام بیچ کے مکان پیدا کرنے کے در پے رہتے ہیں۔ یہاں کے تھنک ”ٹینک“ میں علماء اور خواتین کا پلہ خاصا بھاری ہے۔

بیماریاں۔ اس ریاست کے مکینوں میں متعدد ایمان لیوا بیماریاں پائی جاتی ہیں جن میں رشوت کی شوگر، سمگلنگ کی کلپٹو کریسی، ذخیرہ اندوزی کا کینسر، عدم برداشت کا بلڈ پریشر، خود نمائی کا موتیا، کام چوری کا الزائمر، وعدہ خلافی کا ڈمینشیا، سرخ فیتے کی ٹی بی، سوشل میڈیا کا ایڈز، حکمرانی کی رے بیز، گالی گلوچ کا یرقان اور نا اہلی کا فالج قابلِ ذکر عوارض ہیں۔ یہاں کا نزلہ محض غریب پہ ہی گرنے کا رسیا ہے۔ لوگ بیماریوں سے کم اور مسیحاؤں کے طریقہ ہائے علاج سے زیادہ مرتے ہیں۔ اہلِ سیاست علاج کو پرہیز سے بہتر سمجھتے ہیں۔ شا ئد اسی لئے اقبال انہیں ابلیس کے فرزند کہا کرتے تھے۔

خوراک اور پھل۔ قرض کی مئے قومی مشروب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ماضی میں سلطنت سیاست کے باشندوں کی خوراک مثالی تھی جس میں قومی اثاثے، خزانے اور کمیشن کھانے کا رواج عام تھا تاہم بوجوہ ببانگِ دہل بسیار خوری محال ہوچکی ہے۔ مستزاد مکافات عمل کے موجب حالیہ خوراک میں دھکے کھانا، آنسو پینا ہمراہ چنے چبانا ہے۔ شرم و حیاء، تحمل، بردباری کی فصلات کا قحط ہے جبکہ ضمیر کی فصل بر آمد کر دی جاتی ہے۔ عوام کا خون، گوشت اور کھال حکومتوں کی امانت ہیں۔

پھلوں میں خربوزہ مرغوب ہے کیونکہ اس کی نسبت سے نئے لوگ پرانوں سے رنگ پکڑتے ہیں۔ یہاں کی مونگ کی دال حریفوں کے سینوں پہ دلنے کے کام آتی ہے جبکہ مسور مخالفین کے منہ چڑانے میں استعمال ہوتی ہے۔ انگور دانت کھٹے کرنے کے لئے مفید رہتے ہیں۔ البتہ کھجور گرتے ہوؤں کو پھر سے اٹکانے کے موجب پسند نہیں کی جاتی۔ کسی خاص باغ کی مولی اور تھالی کے بینگن بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہاں صبر کا پھل ناپید ہے۔

جانور۔ سیاست میں گھوڑا قومی جانور ہے جو ٹریڈنگ کے کام بھی آتا ہے۔ گدھوں کو تو مثالی شہرت ملی البتہ شیر کمزوری اور بدنامی کے باعث مایوسی کا شکار ہیں۔ ان کی زندان سے آنکھ مچولی بھی چلتی رہتی ہے۔ لومڑیاں، لگڑ بگڑ، بلیاں، بندر، کچھوے اور خرگوش بھی کثرت سے موجود ہیں۔ آوازِ سگاں کا چرچا بھی رہتا ہے۔ آستین کے سانپ تو ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں فاختاؤں کی جگہ ”باز“ لے چکے ہیں۔ دورِ حاضر میں بھینسوں، کٹوں اور مرغیوں کو تاریخ ساز اہمیت حاصل ہے۔ اقبال کا شاہین کب کا اڑ چکا البتہ ”ہما“ نامی پرندہ کافی متحرک ہوتا جارہا ہے کیونکہ بے شمار سر اس کے منتظر رہتے ہیں۔

کھیل۔ سلطنت سیاست میں امپائر کو ملائے بغیر کھیلنا کٹھن جانا جاتا ہے۔ شطرنج اور سانپ سیڑھی کے کھیل خاصے مقبول ہیں۔

قدرتی آفات۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوجے کے لئے سب سے بڑی آفات ثابت ہوتی ہیں۔ سونامی کی آفت پچھلی حکومت کو بہا کر لے گئی جبکہ آج مہنگائی کی سونامی عوام کے سر ہے۔ پٹرول اور بجلی بم بھی نمایاں آفات ہیں۔ بجلی کا ملنا محال اور گرنا معمول ہے۔ ایسے ہی گیس کا آنا کم اور ہوجانا عام ہے۔ نیب، عدلیہ، میڈیا، پانامے، اقامے، اکاؤنٹس، قرض، ٹیکس وغیرہ اس سلطنت کے باسیوں کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہتے ہیں۔

مشہور شہر اور مقامات۔ سلطنت ِسیاست میں چند مقاماتِ ممنوعہ و مقدسہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن میں جاتی امراء، بنی گالا، بلاول ہاؤس اور منصورہ نمایاں ہیں۔ ایک شہر دھرنوں کے باعث پسندیدہ تفریحی مقام بھی بن چکا ہے۔ دیگر مشہور شہر وں کا تعارف ذیل میں ہے۔

ٹیکس لا۔ اس شہر میں لوگوں کی تمام روز مرہ لوازمات پہ ٹیکس لاگو کرنے، عوام کا خون نچوڑنے اور ٹیکس زنی کے جدید ترین ذرائع دریافت کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان ٹیکسوں کا غریبوں پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا۔

مفاہمت نگر۔ یہ شہر انسانی، سیاسی اور جماعتی حقوق کے تحفظ کا علمبردار ہے۔ اس میں اوپر والوں کی رضا کی خاطر رسمِ عفو و در گزر نبھائی جاتی ہے۔ اس میں تکنیکی بنیادوں پر حریفوں اور دشمنوں کے صغیرہ کبیرہ گناہوں کی دھلائی اور معافی کے بڑے بڑے کارخانے اور لانڈریز ہیں۔ اس شہر کا خفیہ کوڈ این آر او ہے۔ اک رائے ہے کہ این آر او دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں مگر یہاں یہ حدود محض لینے والوں پہ لاگو ہیں۔

انتقام آباد۔ تاریخ میں اس شہر کا بڑا نام ہے۔ حاضر سرکار اپنے سیاسی اور جملہ مخالفین کو اس شہر میں آباد کرتی ہیں۔ الزامات، مقدمات اورسزاؤں کی قیامت خیز مارکیٹ ہے جس کے مرکز میں کالے پانی کی جھیل بھی ہے۔ ماضی میں ایک پھانسی گھاٹ بھی تھا جو اب مسمار کردیا گیا ہے۔ پوڈو، ایبڈو اور نیب اس شہر کے نمایاں علاقے ہیں۔ این آر او کی نمو اورآبادی کے پھیلاؤ کے باعث انتقام آباد کی شرحدیں مفاہمت نگر تک پھیل چکی ہیں۔ یوں اب جڑواں شہروں کا گمان ہوتا ہے۔

یو ٹرن سٹی۔ یہ شہر دریائے فور ٹوینٹی کے سراب زدہ کنارے پہ واقع ہے۔ اس میں مکروفریب کی دلکش موٹر ویز اور ہوش ربا شارٹ کٹس ہیں۔ یہاں کے مکینوں کے مطابق وعدوں کی تکمیل مورکھوں کا چلن ہے جبکہ صفائی سے مکرنا دانشمندوں کا شیوہ ہے۔ ڈیرہ منصف خان۔ یہ عظیم الشان شہر عظمت، بزرگی اور طاقت کا منبع ہے جس میں جاتے ہوئے بڑے بڑے سورماؤں پہ لرزا طاری ہوجاتا ہے۔ یہاں مزاجِ یار کے مطابق لوگوں کو طلب کرکے سر تسلیم خم کرنے کے مراکز ہیں۔

شہر کے وسط میں ہتھوڑے کا پر وقار مجسمہ عوام کو از خود اپنی اہمیت کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ عسکر یوال۔ یہ شہرسلطنتِ سیاست کا مضبوط گڑھ اور حقیقی طاقت کی علامت ہے۔ جیپوں، ڈنڈوں اور بوٹ بنانے کے میعاری کارخانے اسی شہر میں ہیں۔ سیاسی بھونچال اور جھٹکوں کا موجب بننے والی پلیٹیں اسی شہر میں زیرِ زمین پائی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ دھرن پورہ، کرپشن ٹاؤن اور تجاوزات آباد کا شمار بھی مشہور شہروں میں ہوتا ہے۔

ادبی، ثقافتی اور کہاوتی ورثہ۔ اگرچہ سیاست اور ادب کا اینٹ کتے کا ویر ہے تاہم ادبی حوالے سے اہل سیاست قدرے ذوق رکھتے ہیں۔ میڈا سائیں اور عمرانی رویوں پہ ریحامی کتابیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بہت سے ڈرامیں اور فلمیں بھی قابلِ ذکر ہیں جن میں خان دا کھڑاک، وحشی شیخ، میاں ان ٹربَل، چوہدریاں دا چنبہ، نیب دا ویر، اتھرا میڈیا، شریف بزدار، ٹھَگز آف پاکستان شامل ہیں۔ سیاسی کہاوتوں میں مجھے کیوں نکالا، ٹریکٹر ٹرالی، جس کی لاٹھی اس کی گائے، آبیل مجھے ضرور مار، لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو، قرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کوئی شرم ہوتی ہے حیا ہوتی ہے، 35 پنکچرز، دھاندلی، تاریخی لعنت، پھٹیچر، ریلو کٹے، پیرنی مرید، چھانگا مانگا، روٹی کپڑا اور مکان، ڈیزل، پن دی سری، بابا رحمت، پاکستان کھپے، مزاحیہ استعفے، دھرنے اور گو نواز گو نا قابلِ فراموش اصطلاحات ہیں۔ مگر سیاسی کھیلوں میں غیر سیاسی رویوں کا انجام اکثر اس طلسماتی کہاوت سے ہوتا نظر آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).