پاکستان سوچے گا نہیں، جواب دے گا!



چند روز قبل مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی سیکیورٹی فورسزپرہونے والے حملے کے بعد سے بھارت عالمی اور قومی فورم پر پاکستان کےخلاف زہر اگلنے میں مصروف ہے۔ چاہے سفارتی شخصیات ہوں یا بھارت کی ادبی اور شوبز سے تعلق رکھنے والی سیلیبریٹیز، ہر جگہ سے جنگ کی آوازیں اور نفرت کی آگ بلند ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد بھارتی سوچ کی غلاظت بھی سوشل میڈیا پر ہر طرف پھیلی نظر آ رہی ہے۔

پاکستان کو سبق سکھانے اور حملے کی بھارتی دھمکیوں کے جواب میں ہمارے وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو عندیہ دیا کہ اگربھارت حملہ کرے گا تو فوری جواب دیں گے۔ وزیراعظم نے دوک ڈوک کہا کہ حملے کے بعد سوچیں گے نہیں، جواب دیں گے۔

اتنی غیر یقینی صورتحال میں یقینا پاکستان کے وزیر اعظم کی جانب سے یہ بیان انتہائی اہم، مدبرانہ اور دانشمندانہ تھا۔ لیکن یہاں کچھ سوالات بہت اہم ہیں! پاکستان اور بھارت تو دونوں ہی نیوکلئیر پاورز ہیں۔ ایسی صورت میں اگر بھارت پاکستان پر جنگ مسلط کرتا ہےتو یہ روایتی (conventional warfare) ہو گی یا غیر روایتی (unconventional Warfare)؟ ‘روایتی جنگ’جس کو کنونشنل وارفئیر کہا جاتا ہے اس میں دشمن ایک دوسرے کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے میدان جنگ میں ایک دوسرے کا سامنا کرتے ہیں، ان ہتھیاروں کے ساتھ عام طور پر کیمیکل، بیالوجیکل اور نیوکلیئرہتھیاروں کااستعمال نہیں کیا جاتا جبکہ ‘غیرروایتی’جنگ میں نیوکلیئر، بیالوجیکل اور کیمیائی ہتھیاروں کو دوسرے ملک کی شہری آبادی اور مسلح افواج کے خلاف استعمال کیا جاتا اور دشمن کے خلاف غیر روایتی Tactics استعمال کی جاتی ہیں۔

پھریہاں ایک سوال اور کہ جنگ میں پہل کون کرے گا؟ روایتی جنگ کا آغازپاکستان یا بھارت کسی کی جانب سے بھی کیا جائے یقیناً ایک ملک کو زیادہ اور دوسرے کو کم یا ہوسکتا ہے دونوں ممالک کو برابر نقصان اٹھانا پڑے لیکن غیر روایتی جنگ کی صورت میں سب سے پہلا سوال تو یہ کھڑا ہوتا ہے کہ اس کا آغاز کون کرے گا؟ یقینا پاکستان جیسا ‘دوراندیش’ ملک تو ایسا قدم کبھی نہیں اٹھائےگا لیکن اگر جنونی بھارت کی جانب سے ایسا کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو جیسا کہ وزیراعظم صاحب نے فرمایا کہ ‘پاکستان سوچے گا نہیں جواب دے گا’ کیا پاکستان جواب دینے کی پوزیشن میں رہ جائے گا؟ نیوکلیئر وار فیئرمیں سب سے اہم ملک کی ‘اسٹیریٹیجک ڈیپتھ’ ہوتی ہے۔

سال دوہزار دس تو ہم سب کو ہی یاد ہوگا جب امریکی فورسز افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنے میں پوری طرح متحرک تھیں اور پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی تھا۔ اس وقت امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ڈیویڈ پیٹریاس نے کہا تھاکہ پاکستان کا یہ نظریہ بلاجواز نہیں کہ مستقبل میں ہندوستان سے کسی بھی جنگ صورت میں پاکستان کو اسٹریٹجیک ڈیپتھ چاہئیے۔ ایک عسکری گہرائی چاہئیے کیونکہ جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کی چوڑائی بہت کم ہے اور افغانستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو پاکستان کو اسٹریٹیجک ڈیپتھ مہیا کرسکتا ہے تاکہ کسی ایمرجینسی کی صورت پاکستان اپنا اسٹریٹیجک ڈھانچہ وہاں منتقل کر سکے اور جوابی کارروائی کے قابل ہو سکے۔ اب اگر یہ بات امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے کہی ہے تو یقینا اہم ہی ہوگی جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہےکہ پاکستان کا موجودہ جغرافیہ پڑوسی ملک کے ساتھ نیوکلیئروار کی صورت میں کسی طرح بھی آئیڈیل نہیں جبکہ اس کے برعکس اگر بھارت کے نقشے پر نظر ڈالی جائے توبھارت کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ پاکستان کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے جبکہ پاکستان کی اوسط اسٹریٹیجک ڈیپتھ بھی بھارت کے مقابلے میں بہت زیادہ نہیں ہے۔ جوہری جنگ میں کسی بھی ملک کی ‘اسٹریٹیجک ڈیپتھ ‘ بہت اہم ہوتی ہے۔ ‘اسٹریٹیجک ڈیپتھ’ کا مطلب ہے کہ ملک اپنے اہم ترین اثاثوں کو تیزی سے پیچھے لے جا سکیں اور جوابی کارروائی کے لیے تیار کر سکیں۔ اسٹریٹیجک گہرائی کےلیے یہ بھی بہت اہم ہے کہ دشمن کی افواج اور’ملک کے مرکز’جس سے مراد ملک کے فوجی اور تجارتی مراکز کے درمیان فاصلہ کیا ہے؟ کیا وہ ملک اپنے جوہری اثاثے فوری طور پر محفوظ مقامات پر منتقل کرکے جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔ اس کےہمسایہ ممالک بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ جنگ میں دشمن ملک کو اپنی سرزمین ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں یا ہمسایہ دوست ملک کی سرزمین پر اپنے جوہری ہتیھار محفوظ بنا لیے جائیں۔

اب اگر پاکستان کے بارڈرز پرایک نظر دوڑا لی جائے توایک طرف پاکستان کی طویل سرحد روایتی حریف بھارت سے اور دوسری طرف طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ہے۔ دونوں ہی ہمسایہ ممالک کے ساتھ پاکستان کے سرحدی تنازع اپنی جگہ لیکن کبھی دہشتگردی تو کبھی سرحد پار حملے بھی پاکستان افغانستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدگی کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستان اور چین کےتعلقات تو ٹھیک ہیں۔ بلکہ ‘پاک چین دوستی’ ہمیشہ ‘زندہ باد’ رہی ہے لیکن چائنا کے ساتھ معاملات دہشت گردی پرخراب ہوتے ہیں جنھیں منظرعام میں لائے بغیر خاموشی سے حل کیا جاتا ہے۔ رہ گئی بات ایران کے ساتھ تعلقات کی تو یہ بھی مسائل کا شکار رہتے ہیں لیکن دوبارہ معمول پر بھی آجاتے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ اسٹریٹیجک ڈیپتھ کی جب بات کی جائے تو پاکستان پر ہمسایہ ممالک کا کتنا اعتماد ہے اورپاکستان خود ان ممالک پرکس حد تک اعتماد کر سکتا ہے جن سے وہ خود گھرا ہوا ہے؟

لیکن ان تمام عناصر کے باوجود بھارت کو یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ پاکستان نے ستر سال بھارت کےلیے ہی اپنی فوج اور نیوکلیئرصلاحیت تیار کی ہے۔ پاکستان کے جوہری اثاثے ہمیشہ سے محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ پاکستان وہ ملک اور پاکستانی وہ قوم ہے جس نے اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر اپنے ہاتھوں سے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی اور دفاع کیا۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ضرور ہے لیکن بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ پاکستان کی فوج صرف وہ فوج نہیں جو یونیفارم پہنتے ہیں، دو سو ملین پاکستانی بھی پاکستان کے سپہ سالار ہیں۔ بھارتی ایک منقسم قوم ہے لیکن پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لیے پاکستانیوں کا دین، ایمان،مذہب، فرقہ اور سیاسی جماعت صرف ‘پاکستان’ ہے۔ اور یہ جذبہ، اتحاد اور یقین ہی پاکستان کی ‘اسٹریٹیجک ڈیپتھ’ ہے۔ جیسا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ دو جمہوری ملک ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہیں لڑتے پاکستان جنگ میں پہل کی تیاری نہیں کر رہا لیکن دفاع ہمارا حق ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے پاس کیسے ہتھیار ہیں، فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ آپ کو عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ اور یاد رہے کہ بھارت کی 13 لاکھ آرمی کے مد مقابل پاکستانی افواج کے ساتھ تقریبا 22 کروڑ عوامی فوج کھڑی ہے جو کہ پاکستان کی اصل ‘اسٹریٹیجک ڈیپتھ’ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).