ساڑھے نو ارب روپے کا کیا کریں؟


میں سادہ لوح نہیں بلکہ لالچی ہوں، لہذا کوئی بھی ڈبل شاہ میرے پیسے دوگنے کرنے کا جھانسہ دے سکتا ہے۔ میں بے وقوف نہیں بلکہ طفلانہ متجسس ہوں، لہٰذا کوئی بھی اچھی ڈگڈگی بجانے والا مجھے اپنے پیچھے لگا کے کہیں بھی عین جنگل میں چھوڑ کے چمپت ہو سکتا ہے۔ مگر میں خود کو پھر تسلی دے لیتا ہوں کہ کوئی اور مسیحا آئے گا اور سارے دلدر لے جائے گا۔

اس تناظر میں آپ کو شاید یہ ملک اپنا دماغ اور کچے کان ٹھیکے پر دینے والے کروڑوں لوگوں کو رجھانے والے بھانت بھانت کے شعبدہ بازوں کی جنت محسوس ہو۔ ہر کوئی آتا ہے اپنے چمتکاروں سے مجھ جیسے لال بھجکڑوں کو سوہانے سپنوں کا ٹانک پلا کے مدہوش کر کے یہ جا وہ جا۔

اب تو لگتا ہے کہ ہر نیا کردار دراصل پرانا ہی ہے جو گیٹ اپ بدل بدل کے سٹیج پر آ رہا ہے، جا رہا ہے اور پھر آ رہا ہے۔ ہمارا کام بس آہ اور واہ کرنا ہے۔ کبھی کبھار لٹنے کا احساس ہو جائے تو جھینپ مٹانے کے لیے ادھر ادھر یا چھت کی طرف دیکھ لیتے ہیں۔ آوازہ کس نہیں سکتے ورنہ ہال سے نکال کے بے حال کر دیے جائیں گے۔

جنرل ضیا الحق نے یکم جولائی انیس سو پچاسی کے بجٹ میں درآمدات پر ایک فیصد اقرا سرچارج عائد کر دیا۔ تاکہ جمع ہونے والی رقم سے تعلیم فروغ پائے۔ ضیا صاحب چلے گئے مگر اقرا سرچارج جون انیس سو چورانوے تک رہا۔ پینسٹھ ارب روپے جمع ہوئے۔ کہاں گئے، تعلیم پر لگے تو کب اور کیسے؟ نہ کوئی بتاتا ہے نہ چھان بین کرتا ہے۔

میاں نواز شریف نے مئی انیس سو اٹھانوے میں ایٹمی دھماکے کے عوض عام شہریوں کے غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس منجمد کر دیے۔ قرض اتارو ملک سنوارو سکیم کے تحت عوامی عطیات، قرضِ حسنہ اور ٹرم ڈپازٹس کی شکل میں نو سو اٹھانوے ملین روپے جمع ہوئے۔ اس میں سے صرف ایک سو ستر ملین روپے قرض اتارنے کے لیے استعمال ہوئے۔ آج پاکستان انیس سو اٹھانوے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ مقروض ہے اور سود ادا کرنے کے لیے بھی ہاتھ پھیلانا پڑ رہا ہے۔

دیامر بھاشا ڈیم کے تعمیراتی کام کا پرویز مشرف سے نواز شریف تک ہر حکمران افتتاح کر چکا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ انیس کے وفاقی بجٹ میں بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ایک کھرب روپیہ مختص کیا گیا۔ مگر وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈیم کی تعمیر میں تاخیر کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے چھ جولائی کو سپریم کورٹ کا ڈیم فنڈ قائم کر دیا۔

حاسدوں نے سوالات اٹھائے کہ جہاں بڑے بڑے عالمی مالیاتی ادارے ہچکچا رہے ہیں وہاں پندرہ کھرب روپے مالیت کا یہ آبی منصوبہ محض عوامی چندے سے کیسے مکمل ہو گا؟ کیا دنیا میں ایسی کوئی اور بھی مثال ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے فضول سوالات اٹھانے والوں پر عدالت آئین کا آرٹیکل چھ لاگو کر سکتی ہے۔ یعنی ڈیم کے چندے پر سوال اٹھانا غداری اور غداری کی سزا موت۔

ڈیم فنڈ میں عطیہ کرنے کے لیے مسلح افواج سمیت سرکاری اداروں کے ملازموں کی ایک دن کی تنخواہ بنا پوچھے کاٹی گئی۔ چیف جسٹس نے فنڈ جمع کرنے کے لیے بیرونی دورے کیے۔ بلڈر ملک ریاض سمیت جن زوردار و زردار لوگوں کے مقدمات زیرِ سماعت تھے انہوں نے بھی ڈیم فنڈ میں عطیات دینے کا اعلان کیا۔

ریٹائرمنٹ سے ایک دن پہلے جسٹس ثاقب نثار نے سکول کے بچوں کو اپنا جیب خرچ، دواؤں کا خرچہ ڈیم فنڈ میں عطیہ کرنے والے مریضوں اور پنشنرز کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ اب ڈیم کی تعمیر کوئی نہیں روک سکتا۔

مگر اٹارنی جنرل نے گذشتہ ماہ عدالتِ عظمی کو بتایا کہ پیمرا کی ہدایت پر ٹی وی چینلز نے دیامر بھاشا ڈیم کے اشتہارات نشر کرنے کے لیے تیرہ ارب روپے کا ایر ٹائم مختص کیا۔ پھر بھی کل ملا کے لگ بھگ ساڑھے نو ارب روپے جمع ہو پائے۔ یعنی ڈیم پر ہونے والے خرچے کا ایک فیصد سے بھی کم۔

اب سے تین دن پہلے ریٹائرڈ جسٹس ثاقب نثار نے لاہور میں پانی کے بحران پر ایک مذاکرے میں کہا کہ دیامر بھاشا فنڈ دراصل ڈیم کی تعمیر کے لیے نہیں بلکہ اس منصوبے کے بارے میں شعور پھیلانے کے لیے قائم کیا گیا۔ ملک کی خاطر میں ہر طرح کی تنقید کا سامنا کرنے کو تیار ہوں۔ تالیاں۔۔۔

ثاقب نثار تو چلے گئے۔ ساڑھے نو ارب روپے کا اب کیا کریں؟ اور ثاقب نثار کا کیا کریں؟ اور پھر اپنا کیا کریں؟ حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).