نواز شریف کی رہائی: تانگہ آ گیا کچہریوں خالی


بارہ بج کر پنتیس منٹ عدالتی اہلکار کمرہ عدالت میں آتا ہے۔ گویا اس بات کا اشارہ تھا کہ ججز کی کرسی انصاف پر آمد آمد ہے۔ کورٹ روم سے متصل کمرے سے جسٹس محسن اختر کیانی کے پیچھے جسٹس عامر فاروق آتے ہیں۔ کرسی عدل پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔

کمرہ عدالت لیگی کارکنان، وکلاء، سابق وزیران، سینیٹرز سے بھرا ہوا ہے، ماحول میں پن ڈراپ خاموشی چھا جاتی ہے۔

عدالتی اہلکار آواز لگاتا ہے میاں نواز شریف بنام سرکار۔

کمرہ عدالت میں تسبیحات کا ورد ہو رہا ہوتا ہے۔ انگلیاں رُک جاتی ہیں، سانس بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔ تمام نگاہیں ججز پر مرکوز ہوتی ہیں۔ جسٹس عامر فاروق کو ریڈر فائل دیتا ہے فائل ہاتھ میں پکڑ کے ورق اُلٹے بغیر dismissed کا لفظ بولتے ہیں اور اپنے چمیبرز میں چلے جاتے ہیں۔

کمرہ عدالت میں سرگوشیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ لیگ سے تعلق رکھنے والی خواتین سینیٹرز و ایم این ایز پوچھتی ہیں کیا فیصلہ ہوا؟ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف سے جاننا چاہتے ہیں کہ ججز نے آ کر کیا فیصلہ دیا؟ قطار میں کھڑے سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید حیراں و پریشان ہوتے ہیں، دیوار کے ساتھ پہلی قطار میں بیٹھے نواز شریف کے دست راست عرفان صدیقی ششدر رہ جاتے ہیں۔ بزرگ سیاستدان راجہ ظفرالحق اپنے ساتھ بیٹھی سینیٹر نزہت صادق سے جاننا چاہتے ہیں کہ آخر فیصلہ کیا ہوا؟ خاتون سینیٹر بھی لاعلم ہیں۔ انھوں نے مجھ سے دریافت کیا۔ بتایا کہ درخواست ضمانت مسترد ہو گئی۔

کمرہ عدالت میں موجود ن لیگ سے تعلق رکھنے والے مرد و زن آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ بوجھل دل کے ساتھ کمرہ عدالت سے باہر آتے ہیں۔ فیصلے پر ملا جُلا ردعمل دیتے ہیں۔ ہائی کورٹ عمارت کے عین سامنے سڑک پر کارکن وزیراعظم نواز شریف کے حق میں نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے نو صفحات پر مشتمل فیصلہ لکھا۔ جسٹس عامر فاروق سپریم کورٹ سے حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار کے بھائی کے داماد ہیں۔ یہ جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بنے تھے تو اسلام آباد کے وکلاء نو روز ہڑتال پر رہے تھے۔ جسٹس محسن اختر کیانی کا خاندان بھی پڑھا لکھا ہے ان کے ایک بھائی آرمی میں بریگیڈیئر ہیں اور خاندان کے دیگر فرد پیپلزپارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔

نو صفحات پر مشتمل فیصلے میں ججز نے لکھا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ بیمار قیدی کو ہسپتال میں بھیج دے۔ عدالتی فیصلے میں عدل کے پیامروں نے یہ بھی لکھا کہ نواز شریف کو طبی سہولیات مل رہی ہیں۔ اُن کا کیس ہارڈ شپ کا کیس نہیں بنتا۔ اپنے فیصلے میں انھوں نے سندھ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کیس کا بھی حوالہ دیا۔ منصفین کے قلم سے یہ بھی لکھا گیا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے تناظر میں رہائی نہیں دی جا سکتی۔

سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید سے فیصلہ آنے سے قبل پوچھا کہ نواز شریف “فرد سے علامت ” بن سکتے ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت بھی علامت ہیں۔

نواز شریف کا کیس بھی بڑا دلچسپ کیس ہے۔ نواز شریف کا ڈان لیکس سے معاملہ خراب ہوتا ہے۔ پنڈی سے ایک ٹویٹ کیا جاتا ہے جو ازاں بعد واپس لیا جاتا ہے، بدمزگی باقی رہ جاتی ہے۔ سبق سکھانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ہاتھ کوئی معقول بہانہ نہیں آتا، پانامہ کیس البتہ موجود تھا۔ جس معاملے کو کبھی ناقابل سماعت قرار دیا گیا تھا، وہ 184/3 کا سزاوار قرار پایا۔ بساط بچھائی جاتی ہے۔ مہرے تلاش کیے جاتے ہیں، جن کی باگیں کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ جے آئی ٹی، سپریم کورٹ، احتساب عدالت پھر ہائی کورٹ۔ باقی تاریخ ہے۔

نواز شریف سب کچھ کھو دیتا ہے، وزارت اعظمی، پارٹی صدارت اور سب سے بڑھ کر اپنی رفیقہ حیات۔ اب اُس کے پاس کھونے کو بچا کیا ہے؟ فرد سے علامت بننے کا سفر جاری ہے۔ استقامت رہی تو پھر علامت بن کر لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہو جائیں گے

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui