ایک دوست کے نام بے حد نجی خط


(مندرجہ ذیل خط راقم الحروف کی طرف سے اپنے پرانے دوست محمد علم اللہ کے ایک اچانک موصول ہوئے ایس ایم ایس کا جواب ہے۔ اس برجستہ جواب میں بے ترتیبی اور تحریری کمیاں پائے جانے کا پورا اندیشہ ہے اس لئے قارئین سے گذارش ہے کہ تحمل اور درگزر کا مظاہرہ فرمائیں۔ محمد علم اللہ کا نام ہم سب کے قارئین کے لئے نیا نہیں ہے اس لئے اس بے حد نجی تحریر پر اس کے قارئین کا بھی کچھ حق بنتا ہے سو اسے بغرض اشاعت روانہ کیا جا رہا ہے۔ )

عزیر دوست علم اللہ، بہت سی دعائیں۔

سنیچر کی شام ساڑھے آٹھ بجے کا وقت ہے، کام میں مصروف تھا کہ سامنے رکھے فون کی اسکرین روشن ہوئی۔ تمہارا ایس ایم ایس آیا ہے۔ تم نے لکھا کہ ”مجھ سے گفتگو کا دل چاہ رہا ہے۔ “ یقین مانو تمہارا یہ چھوٹا سا پیغام ذہن میں سوچ کے نہ جانے کتنے دریچے کھول گیا۔ احمد مشتاق شدت سے یاد آنے لگے جنہوں نے کہا تھا:

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
کیا زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے

کیسی تعجب کی بات ہے کہ تمہاری اور میری رہائش گاہ شہر کی ایک ہی بستی میں ہے لیکن ملاقات کو کئی برس ہو گئے۔ تمہارا ایس ایم ایس ذہن میں نہ جانے کتنی یادوں کی جھانکیاں لے آیا۔ سردیوں کے دن ہیں، شام بڑی تیزی سے اتر رہی ہے۔ تم اور میں جامعہ کے ہائیجینک کیفے کے سامنے پارک میں بیٹھے ہیں۔ تمہارے ہاتھوں میں میرزا ادیب کی مٹی کا دیا ہے اور تم پڑھ کر سنا رہے ہو۔ کتاب کا وہ حصہ آ پہنچا جس میں درج ہے کہ:

”ابا جی مجھے مارتے تھے تو امی بچا لیتی تھیں ایک دن میں نے سوچا اگر امی پٹائی کریں گی تو ابا جی کیا کریں گے۔ یہ دیکھنے کے لئے کیا ہوتا ہے میں نے امی کا کہنا نہ مانا، انہوں نے کہا بازار سے دہی لادو میں نہ لایا انہوں نے سالن کم دیا تو میں نے زیادہ پر اصرار کیا انہوں نے کہا پیڑھی پر بیٹھ کر روٹی کھاؤ میں نے دری بچھا لی اور اس پر بیٹھ گیا، کپڑے میلے کر لئے میرا لہجہ بھی گستاخانہ تھا مجھے ے پورا یقین تھا امی مجھے ماریں گی مگر انہوں نے یہ کیا مجھے سینے سے لگا کر کہا“ کیوں دلاور پُترا میں صدقے توں بیمار تے نئیں ”اس وقت میرے آنسو تھے کہ رکتے نہیں تھے۔ “

ان الفاظ میں نہ جانے کیسا اثر تھا کہ ماحول اچانک نمناک ہو گیا۔ دو ایسے لڑکے جو اپنے گھروں سے دور دوسرے شہر میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے رہ رہے ہیں، دونوں کے دلوں کی کیفیت آنسو بن کر گالوں پر آ نکلی۔ کتاب کی قرائت تھم گئی اور دونوں اپنے اپنے گھروں کی یادوں اور ذکر میں کھو گئے۔ ایک کی آواز جب زیادہ رندھنے لگتی تو دوسرا اپنی یادوں کا ذکر شروع کر دیتا۔ اُس سرد اور اوس برساتی شام یہ سلسلہ دیر تک چلا۔

طالب علمی کے دور کے لوازمات میں تنگ دستی سر فہرست رہتی ہے اور جہاں بات ہی دو ایسے لڑکوں کی ہو جن کو اپنے گھر والوں پر کم سے کم مالی بوجھ ڈالنے کی دھن سوار ہو وہاں صبح و شام کی تگ و دو کچھ زیادہ ہو جاتی ہے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو نہ جانے کتنی بار گھر والوں سے فون پر بات کرتے سنا جہاں ہم انہیں یقین دلا رہے ہوتے تھے کہ ہمیں بالکل کوئی پریشانی نہیں ہے۔ گھر والوں کو تسلی دے کر جب فون کاٹا جاتا تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا جہاں ٹیلی فون پر کی گئی اس غلط بیانی کی نہ تو کوئی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی اور نہ ہی سامنے والے کو اس غلط بیانی کی وجہہ جاننے کی حاجت ہوتی۔

عید پر جامعہ کیمپس میں ہو کا عالم ہوتا۔ دہلی میں ہم دونوں کے بے تکلف دوستوں میں سے زیادہ تر اپنے وطن سدھار جاتے اور ہم دونوں جو اکثر عید پر دہلی میں ہی رُک جاتے تھے عید کا پہاڑ جیسا دن کاٹنے میں لگ جاتے۔ تمہارا گھر دہلی سے ہزار کلو میٹر زیادہ فاصلے پر تھا اس لئے سفر آسان نہ تھا، میرا گھر دہلی سے زیادہ دور تو نہیں تھا لیکن میں سفر کا چور تھا اور عید کے موسم کی بھیڑ سے چھلکتی بس میں پانچ گھنٹے بیٹھنا میرے لئے مشکل تھا۔

سچ پوچھو تو وہ دن بڑا بھاری گزرتا۔ نماز کے بعد کیا کریں؟ کوئی دوست نہیں جس کے گھر جائیں، لائبریری تو کیا ریڈنگ روم تک بند ہے جہاں وقت گذار لیں حتیٰ کہ سائبر کیفے مالک تک اس دن عید کی وجہہ سے دکان بند رکھتا جہاں ہم پندرہ روپیہ گھنٹہ ٹائم کاٹ سکتے تھے۔ ویران کیمپس کے کسی حصے میں پڑی پتھر کی گول میز پر پھر سے وہی دو لڑکے بیٹھے ہیں اور اپنے اپنے گھر کی عید کا ذکر چل رہا ہے۔ بچپن کی یادیں، امی بابا کی چاہت، بھائی بہنوں کی شرارتیں اور نہ جانے کیا کیا۔ اسی دوران دونوں کے گھروں سے فون آتا جن کا مضمون عموما ایک جیسا ہوتا۔ بابا اور بھائی عید کی مبارکباد دیتے اور امی اور بہنوں کا اداس شکوہ کہ ”عید تھی تو آیا کیوں نہیں؟ “

صحافت ہم دونوں کا جنون رہا۔ طالب علمی کے مالی بحران کے باوجود اپنا کرایہ لگا کر پروگرام میں جانا پھر اس کی رپورٹ بنانے کے لئے پندرہ روپیہ گھنٹہ سائبر کیفے میں بیٹھنا اور پھر اگلے دن جب وہ چھپے تو اس اخبار کی کاپی خرید کر رکھنا یہ معمول سا بن گیا تھا۔ دہلی کی اردو صحافت میں عام طور پر پایا جانے والا استحصالی رویہ ہم پر اس دور میں خوب ظاہر ہوا۔ تنخواہ کے نام پر چند کوڑیاں دینے والے اردو پیپران کے لوگ توقع رکھتے تھے کہ اس سے چار گنا اپنی جیب سے لگا کر ان کو رپورٹیں لا کر دی جائیں۔ ایک دن جب تمہارے اخبار کے مدیر نے تم سے اسی سلسلہ میں کچھ کہا تو تم نے یہ کہہ کر فون پٹخ دیا کہ ”آپ دیں گے۔ روپیہ اور امید کریں گے کہ ہم اوبامہ کا انٹرویو لے آئیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ “

صحافت کے لئے جنون ہی تھا جو حوصلہ بھی دیتا تھا اور لڑ جانے کی ہمت بھی۔ ایک سرکاری اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے تمہارے ساتھ ناروا سلوک کیا تو دہلی اسمبلی تک میں معاملہ اٹھ گیا۔ اردو کے ایک اخبار کے مدیر نے تمہاری تنخواہ مارلی تو ایک مضمون لکھ کر اس کی ایسی دھلائی کی گئی کہ بلبلاتا ہی رہ گیا۔ ایک ملی تنظیم کے پروگرام میں ذرا بدانتظامی ہوئی تو ایسی رپورٹ چھاپی کہ تنظیم وضاحتیں چھپوانے کو مجبور ہو گئی۔

کتنی ہی یادیں ہیں جو ذہن کی چوکھٹ پر آ کھڑی ہوئی ہیں۔ یہ سب تمہارے اس ایس ایم ایس کی وجہہ سے جس میں تم نے کہا کہ ”تمہارا مجھ سے گفتگو کرنے کو دل کر رہا ہے۔ “ ایک دو روز کا قصہ نہیں بلکہ یہ پورے پانچ برس کے شب و روز ہیں جو جامعہ کیمپس میں گزرے۔ تعلیم مکمل ہوئی تو ہم دونوں پیشہ وارانہ زندگی کی مشغولیات کے جنگل میں گم ہو گئے۔ خدا بھلا کرے ٹیلی فون کا جو تم سے کبھی کبھی گفتگو ہوتی رہتی ہے اور کئی برس سے ہر کال پر یہ وعدہ ضرور ہوتا ہے کہ اگلی بار آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کریں گے۔ خدا کرے کہ جلد ہی تم یونیورسٹی کی ملازمت کی اپنی مشغولیات سے وقت نکالوں اور میں نیوز چینل کی نوکری کی اپنی ذمہ داریوں سے فرصت پاؤں تاکہ تفصیلی ملاقات ہو سکے۔

اپنا خیال رکھو، گھر والوں کو میری طرف سے سلام دعا کہنا۔
تمہارا دوست
مالک اشتر

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter