ڈاکٹر ادیب رضوی کی جیل اور جلیلہ حیدر کی معصومانہ مجبوری


اس دفعہ کراچی میں تیسرا سندھ ادبی میلہ ایسے وقت منعقد ہوا جبکہ کچھ ہی دنوں میں کراچی لٹریچر فیسٹول کا دسواں ایڈیشن بھی ہونے والا ہے، ایسے میں لوگوں ایک بہت بڑی تعداد میں شرکت نہ صرف اس فیسٹول کی کامیابی کی عکاس بلکہ لوگوں کے اعتماد کا بھی مظہر ہے۔ کراچی میں منعقد ہونے والے ایونٹس میں سندھ لٹریچر فیسٹول اس لحاظ سے بھی ممتاز ہے کہ اس میں کسی ایک زبان کے بجائے تمام زبانوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔

اس دفعہ مہمانوں میں جہاں صدر عارف علوی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، مبارک علی اور امجد اسلام امجد جیسی شخصیات شامل تھی، وہاں کوئٹہ کی جلیلہ حیدر اور سندھ کی سسئی لوہار بھی پینل میں شامل تھی جو گمشدہ افراد کی تحریک کا اہم کردار ہیں۔

میلے کے مختلف سیشنس میں گمشدہ افراد کا تذکرہ ہوا، صدرعارف علوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پچھلے کچھ دنوں میں اس معاملہ پر کافی سیر حاصل بات چیت ہوئی ہے، اب یقین دلاتا ہوں کہ صورتحال ابتر نہیں بلکہ بہترہوگی۔

صدر نے مزید کہا کہ سندھ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، یہاں کے باشندوں میں نفرتوں کا خاتمہ ان کی خواہش ہی نہیں آئینی ذمہ داری بھی ہے اور وہ اپنی ذمہ داری پوری کریں گے۔

صدر کے یہ الفاظ سن کر میری ذہن میں ایک دن پہلے مایہ ناز مورخ مبارک علی کی کہی ہوئی باتیں آگئیں جو انہوں نے ہمارے ساتھ بات چیت کرتے ہوئی کیں کہ لوگوں میں نفرتیں بڑھانا سیاسی جماعتوں، لسانی گروہوں اور دیگر مفاد پرست لوگوں کو فائدہ پنہچاتا ہے، جس کی وجہ سے جھوٹی اور بے بنیاد باتوں کو ہوا دے کر لوگوں میں نفرتیں پھیلائی جاتی ہیں، ایسے میں تمام باشعور لوگوں کو آپس میں جڑنا ہوگا۔ ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کے لئے بات کرنی پڑے گی جس کے لئے اس قسم کے میلے بہترین پلیٹ فارم ہیں۔

ماہر موسمیات حسن عباس کا کہنا تھا کہ نئے ڈیم بنانے کی بات کرنے والوں کے دلائل بہت کمزور ہیں کیونکہ دریائی پانی ملک کے آبی وسائل کا چھوٹا حصہ ہے، جبکہ پانی کی بڑی مقدار تو زیر زمین آبی ذخائر ہیں۔ دریائی پانی کے لئے ہمارے گلیشئرز قدرتی ذخائر کی صورت میں موجود ہیں، اصل مسئلہ پانی کی دستیابی نہیں بلکہ تقسیم ہے۔ ان کی بات سن کر میں یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ جناب ہمارا بڑا بھائی تو زیرِ زمین پانی ذخائر کو ملکی آبی وسائل میں شامل کرنے کے لئے ہی تیار نہیں، اس بات کا انہوں نے کوئی براہ راست جواب نہیں دیا۔

ایسے سوالات تو بہت سارے ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں، ایک سیشن میں کوئٹہ سے آئی ہوئی جلیلہ حیدر نے کہا کہ ہمارے سامنے مسائل بہت ہیں مگر ان سے مقابلے کے لئے وسائل محدود ہیں۔ ہم سوشل میڈیا کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کریں تو کیا کریں، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے معصومانہ جواب دیا کہ جن حالات کا سامنا ہے، بات تو کرنی پڑے گی، کسی کو اچھا لگے یا برا، ہم اپنا کام کریں، وہ اپنا کام کریں، جہاں ہم ضروری سمجھیں گے بات کریں گے، جہاں سے وہ خطرہ محسوس کریں اس کو روک لیں، اور کیا کرسکتے ہیں۔

کوئٹہ سے ہی آئے ہوئے صحافی عابد میر کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ کروڑ آبادی کے بلوچستان میں آدھی آبادی بجلی سے محروم ہے، جن کے پاس بجلی ہے، ان میں سے آدھے لوگ انٹرنیٹ کا استعمال نہیں جانتے، ایسے میں آواز اٹھانے والے بہت کم ہیں، جن کی آواز کو دبانا نسبتاّ آسان ہے۔ عابد میر نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ پریس کلب میں جہاں ہزارہ برادری کے لوگوں کی شہادت کے خلاف جلیلہ حیدر کی بھوک ہڑتال نے حکمران کے رونگٹے کھڑے کردیے، وہیں ایک عرصے سے سیما بلوچ بھی گمشدہ افراد کے معاملے پر بھوک ہڑتال پر ہیں مگر آج تک اس کی خبر بھی نہیں چلائی جاتی۔

اسی سیشن میں سندھ کے بہادر صحافی نثار کھوکھر نے برملا وہ بات کی جو کچھ ہی عرصہ پہلے میں نے ہم سب پر اپنے بلاگ میں لکھی تھی کہ اردو میڈیا قومی میڈیا نہیں ہے، اگر قوم کا جو ان کا نظریہ ہے اسی کو مان لیں کہ پاکستان میں سندھی، پنجابی، بلوچی یا پشتون نہیں بلکہ صرف پاکستانی قوم رہتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے، کہ سندھی، بلوچی اور پشتون کی آواز ہی سنائی نہ دے، جہاں ایسا ہونا عام سی بات ہو وہ میڈیا کیسے قومی کہلاسکتا ہے؟

سندھ ادبی میلے میں سائیں جی ایم سید کا بھی ذکر نکلا، ڈاکٹر جعفر احمد نے ایک بات بول کرمنفرد خراج پیش کیا کہ ایک ایسا لیڈر جس کے خلاف دہائیوں سے زہریلا پروپیگنڈہ کیا گیا ہو، ہر جائز و ناجائز الزام لگایا گیا ہو، اگر اس سے عقیدت رکھنے والوں کی اتنی بڑی تعداد اب بھی موجود ہے تو ان کے مخالفین کو اپنی شکست تسلیم کر لینی چاہیے، اور مان لینا چاہیے کہ وہ غلط تھے۔

ڈاکٹر ادیب رضوی کا ذکر نہ کیا جائے تو بات مکمل نہیں ہوتی، جنوب مشرقی ایشیا میں امراض گردہ اور پیوندکاری کا سب سے بڑا ادارہ چلانے والے ڈاکٹر ادیب سے جب آپا نورالھدیٰ شاہ نے پوچھا کہ آپ کے ہاں سب ملازمیں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے، یہ کیسے ممکن ہے؟ ڈاکٹر ادیب نے کہا کہ اگر آپ لوگوں میں تفریق ختم نہیں کرسکتے، کچھ نہیں کرسکتے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ادیب رضوی نے کہا کہ ان کے لئے سندھ ہی سب کچھ ہی، سندھ نے ان کو سب کچھ دیا ہے، وہ سندھ چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے، ہاں اگر جا سکتے تواپنے گاؤں جاتے، آپا نور کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ بھارت کے جس گاؤں سے ان کا خاندان نقل مکانی کر کے پاکستان آیا اس میں خواندگی کی شرح صد فیصد تھی، وہ کچھ عرصہ پہلے اپنے گاؤں کو دیکھنے بھی گئے تھے۔

آپا نور الھدیٰ نے پوچھا کہ آپ گاؤں جانے کی بات کر رہے ہیں، کیا آپ کو جیل سے ڈر نہیں لگتا، ڈاکٹر ادیب رضوی جو پہلے ہی اپنے جیل جانے کا قصہ بیان کرچکے تھے ایک دم بولے کہ اب بھی تو جیل میں ہی ہیں، تھوڑی دیر توقف کرکے بولے کہ اگر میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں یا ان کپڑوں میں بیٹھا ہوں تو یہ بھی ایک طرح کی جیل ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).