مسیحی آبادیوں کی ترقی


پاکستا ن میں مسیحیوں کی تعداد 2017 کی مردم شماری کے مطابق 3,237,893 ہے جو کہ ٹوٹل آبادی کا 1.6 فیصد ہے اور زیادہ تر مسیحی لوگ صوبہ پنجاب اور اسلام آباد کے حدود میں رہتے ہیں۔ جن میں سے بیشتر کرسچن اپنی آباد کی گئی بستیوں اور حکومت کی طرف شہروں سے دو ر آباد کی گئی آبادیوں میں رہتی ہیں، اور اب زیادہ تر آبادیاں شہروں کی حدود پھیلنے سے شہروں کا حصہ بن چکی ہیں۔ اور شہری حدود میں قائم ہونے کے باوجودزیادہ تر مسیحی آبادیوں کی ترقی کی حالت اور ارد گرد دیگر لوگوں کی آبادیوں میں ترقیاتی کاموں کی صورتحال کو دیکھ کر ایک تفریق کا احساس ہوتا ہے، اگرچہ سابق حکومت کا ایک فرد ایک ووٹ کا فیصلہ کم از کم سیاسی اعتبار سے حکومتی نمائندوں کو مسیحیوں اور مسیحی آبادیوں کے رہائشیوں کے پاس تو لے آ یا مگر الیکشن کے بعد پھر سے ان نمائندوں کی محبت ختم ہو جاتی ہے اور ترقی کے لیے ہمیں اپنے نمائندوں سے رجوع کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔

اس سارے عمل میں چونکہ بیشتر مسیحی آبادیوں کو اور رہائشیوں کو متاثر ہونا پڑتا ہے اور رد عمل میں حکومت کو کوسنے اور اپنی بے بسی اور قسمت کا رونا رونے کے علاوہ ان کی نظر میں کو ئی حل نہیں ہوتا۔ اور مشاہدہ یہ ہے کہ اندرونی کہانی بھی کچھ ملتی جلتی ہی ہے، چونکہ ملکی سیاست میں حصہ کم ملنے کی وجہ سے بستیوں کی اندرونی سیاست خوب ہوتی ہے، مذہبی زندگی اگر چہ خوب پھل پھول رہی ہے مگر آ پسی محبت اور اتفاق کم ہو رہا ہے، معاشرتی زندگی میں معاشرتی روایات کی پاسداری اور امیروں کی روایتوں کو اپنانے میں کافی کھلے دل سے گرہ خود کو مقروض کیا جاتا ہے، اور اقتصادی زندگی میں زیادہ تر لوگ ملکر چند محصول داروں کی آ مدنی میں اضافہ کرنے میں طلوع آ فتاب سے مصروف ہو جاتے ہیں۔

مگر ان حالات میں مسیحی نوجوانوں کا، شہید شہبازبھٹی کی جدوجہد، موجودہ سیاسی اور سول سوسائٹی اور تنظیموں کے نمائندگان کی جدوجہدکی بدولت گورنمنٹ کی طرف سے اقلیتوں کی برابری اور ترقی کے سفر میں شامل کرنے کے لیے جاب کوٹہ مختص کرنے اور عملدرآمد ہونے کے بعد، اپنے بھائی بہنوں کو سرکاری نوکریوں میں آ تے دیکھ کر تعلیم حاصل کرنے کی طرف رجحان، مسیحی آبادیوں کے نوجوانوں کی شب و روز محنت اور انگریزی کی بدولت ان کے خاندانی خوشحالی اور اس کے ساتھ ساتھ ملک سے باہر پاکستانیوں کا ملک میں موجود مسیحیوں کے لیے فکر، محبت اور درد خوش آئند ہے، اس قابل تقلید اور فقید المثال محبت سے مقامی لوگوں کی مشکلات میں کافی حد تک کمی ہوتی ہے (مگر کبھی کبھی جنیوا سے اضافہ بھی ہو تا ہے ) ۔ ایک طرف حکومتی کوٹہ سسٹم کے ثمرات اور دوسری طرف نان ریٹرن پاکستانیوں کی سیاسی و مالی مدد اور چند ایک خاندانوں کی معاشی ترقی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسیحی آ بادیوں میں مقا می لوگوں کو ترقی کے سفر میں شامل کرنے کے لیے حکومت کے متوازی چند ایک اجتماعی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

مقا می لوگ اقتصادی ترقی کے لیے ملکر رقم اکٹھی کر کے اخوت ماڈل کی طرز پر چھوٹے قرضہ جات کا ماڈل متعارف کروائیں، خاندانی ترقی کے لیے چھوٹے کاروبار کے ساتھ تعلیمی قرضہ متعارف کروائیں۔ کمر شل بنیادوں پر ماہانہ راشن پروگرام، واٹر فلٹریشن پلانٹ، کیبل و انٹرنیٹ کی سروسز اور دیگر چھوٹے کاروبار کی فراہمی غرض جن جن راہوں سے پیسے بستیوں سے باہر جاتے ہیں، اگر ان سروسز کو مارکیٹ اسٹینڈرڈز پر مقامی لوگوں کے ذریعے ان کو روزگار دیکرایسی معاشی سرگرمیاں کی جائیں اور ان کا کمایا ہوا پیسا جتنا ہو سکے ان کے درمیان پیسا گھمایا جا ئے تو مقامی آبادیوں کی ترقی کے عمل کو حکومت کے متوازی سرگرمیوں سے تیز کیا جا سکتا ہے اور مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع مہیا کیا جا سکتے ہیں۔

مقامی آبادیوں کی سیا سی، معاشرتی، مذہبی لیڈرشپ کو تھوڑی سی آپسی سیاست کم کر کے اقتصادی ترقی اوراجتماعی اقتصادی ترقی بارے ملکر اقدمات کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے ایک دوست خرم شہزاد جو کہ اب اس دنیا میں نہ ہیں اکثر ہمیں کہتے تھے، ۔ کہ ہمیں یہ گلہ کرنے چھوڑ دیں کہ ہمیں عزت نہیں ملتی بلکہ اس سے پہلے ہم قابل عزت تو بنیں، اور قابل عزت بننے کے لیے ہمیں تعلیمی، مالی، سیاسی لحاظ سے سب کوملکر اجتماعی ترقی کرنا پڑی گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).