کیا پاک بھارت ایٹمی جنگ کا امکان ہے؟


پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی طرف سے اس کی ذمہ داری پاکستان پہ ڈالتے ہوئے کھلے عام جنگ کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جنگ کے نقارے بج رہے ہیں اور پاکستان پہ چڑھ دوڑنے اور مٹانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں، بھارتی میڈیا جنگی صحافت کرتے ہوئے اشتعال کی آگ بھڑکانے میں مصروف ہے جبکہ دوسری طرف پاکستانی میڈیا بھی اس کا بھرپور جواب دے رہا ہے۔

سرحدوں اور بلخصوص لائن آف کنٹرول پہ کشیدگی بڑھ چکی ہے بھارت نے لائن آف کنٹرول پہ اپنے زیر قبضہ کشمیر کے دیہات خالی کروا لیے ہیں۔

خطرے کے پیش نظر پاکستان نے بھی لائن آف کنٹرول کے قریب آزاد کشمیرکے رہاشیوں کے لیے الرٹ جاری کرتے ہوئے حفاظتی اور احتیاطی تدابیر کرنے کا حکم دیا ہے۔ خطے کا سب سے بڑا مسئلہ کشمیرہے اور کشمیر ہی میدان جنگ ہے۔

پاکستان نے پلوا مہ حملے میں ملوث ہونے کے الزام کو مسترد کیا ہے اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ثبوت طلب کیے ہیں۔ بھارت کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے امن کی پیشکش کرنے کے ساتھ اس مؤقف کو رد کیا کہ پاکستان جنگی تیاریاں کررہا ہے، جبکہ پاکستان بھارت کے ساتھ کسی قسم کا تنازع نہیں چاہتا اگر جارحیت دکھائی گئی تو فوج ملک کے ایک ایک انچ کا دفاع کرے گی۔

بھارت کی پاکستان کے ساتھ دیرینہ مخاصمت نے دو جوہری ممالک میں ٹکراؤ کی نئی صورت پیدا کردی ہے دونوں جانب سے ایک دوسرے کو سبق سکھانے کے بلند و بانگ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔

اس صورت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اور کسی بھی وقت جنگ کا طبل بج سکتا ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پربھارت کی جنگی تیاریاں یہ ظاہرکرتی ہیں کہ دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور باقاعدہ حملے کی خبر کسی بھی وقت آنے والی ہے۔

لیکن کیا کسی نے سوچا کہ اگر دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو کتنی بڑی تبائی آئے گی

جنگ کی دھمکی اور عملی طور پر جنگ چھیڑ دینا دو الگ حقیقتیں ہیں جنگ کی بات کرنا تو آسان لیکن سامنا کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے

حقیقت میں جنگ کیا ہوتی ہے؟ کیسی ہوتی ہے؟ کتنی بھیا نک ہوتی ہے وہی جانتے جو اس سانحے سے گزر چکے ہیں جواس کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں اور جنگ کے نام سے ہی کانپ اٹھتے ہیں۔

ماضی کی پاک بھارت تین جنگوں کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق مسلح تنازعات قرار دیا گیا جو جنگ سے کم درجہ ہے اگر مسلح تنازعات ایسے ہوتے ہیں تو ذرا سوجیے بھرپور جنگ اورپھر ایٹمی جنگ کے نقصانات کیا ہوں گے۔

لیکن وہ جو جنگ کا ڈنکا بجاتے ہیں ٹاک شوز میں بیٹھ کر خیالی حملے ایک دوسرے پہ چڑھ دوڑنے اور فتح کی باتیں کرنے والے شاید سمجھتے ہوں گے کہ دونوں فوجیں ایک میدان میں صف آراء ہوں گی، یہ لوگ گولہ باری کے تبادلے سے محظوظ ہوں گے، جنگی طیارے اڑتے دیکھیں گے میزائل آتے جاتے دیکھیں گے اور جنگ ان کے لیے تفریح کا سامان ہو گی۔

جبکہ حقیقت میں جنگ ایسے نہیں ہوتی دور حاضر میں جن ممالک میں جنگ جاری ہے وہاں کی تباہ کاریوں کو دیکھا جاسکتا ہے شام، یمن، عراق اور افغانستان کی صورتحال سامنے ہے ان ممالک میں جنگ روایتی ہتھیاروں سے لڑی جاتی رہی لیکن پاکستان اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ہیں۔

فوجی طاقت کے اعتبار سے انڈیا دنیا میں چوتھی بڑی جنگی طاقت ہے جس کے پاس بیالیس لاکھ سے زائد فوجی ہیں، جس میں ساڑھے تیرہ لاکھ سے حاضراور قریب ساڑھے اٹھائیس لاکھ ریزرو ہیں۔

طاقت ور ترین افواج میں پاکستان تیرہواں سب سے طاقتور ملک اور جنگی طاقت ہے۔ دفاعی اورجنگی طاقت میں پاکستان نے اضافہ کیا ہے اور اولین پندرہ ملکوں کی فہرست میں جگہ بنا لی ہے

پاکستانی سرگرم حاضر فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ 37 ہزار ہے۔

اس کے علاوہ تقریباً تین لاکھ ریزرو نفری بھی ہے مجموعی لڑاکا نفری 919000 ہے۔ دونوں ملکوں کے پاس بڑے پیمانے پہ روایتی جنگی ہتھیار جدید ترین اسلحہ اور ہزاروں ٹینک اور لڑاکا طیارے موجود ہیں۔

لیکن معاملہ روایتی جنگی ہتھیاروں تک محدودنہیں ہے دونوں ملکوں کے پاس اب مہلک ایٹمی ہتھیار اور دور مار میزائل بھی موجود ہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جنگ روایتی ہتھیاروں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایٹم بم کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا متحمل پاکستان بھارت تو کیا دنیا کا کوئی بھی ملک نہیں ہوسکتا۔

پاکستان کی ایٹمی صلاحیت بھارت سے بدرجہا بہتر ہے۔ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی جو جدید ترین ہونے کے ساتھ ساتھ دور مار اور ایٹمی صلاحیت کی بھی حامل ہے۔

عالمی ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس ایک سو دس سے لے کر ایک سو تیس ایٹمی ہتھیار ہیں جن میں سے چھیاسٹھ فیصد کسی بھی وقت حملے کے لئے بالکل تیار ہیں، پورا بھارت پاکستانی میزائلوں کی رینج میں ہے اور اگر پاکستان نے کارروائی کی تو بھارت کے تمام بڑے شہر نیست و نابود ہوجائیں گے،

بھارت ایک سو دس سے لے کر ایک سو بیس ایٹمی وار ہیڈز رکھتا ہے اور تریپن فیصد میزائل حملے کے لئے ہروقت تیار ہیں، اگر بھارت حملہ کرتا ہے تو اسلام آباد، لاہور، کراچی اس کا اہم نشانہ ہوں گے۔

جنگ کسی بھی سطح پر لڑی جائے یقیناً نقصان دہ ہوتی ہے۔ لیکن ایٹمی جنگ کے بارے میں سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے

بین الاقوامی ماہرین پاکستان اور ہندوستان کے کی ایٹمی لڑائی کے نتائج کی ہولناک پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں ایٹمی جنگ ہوئی تو دونوں ممالک راکھ کا ڈھیر بن جاہیں گے۔ جنگ کے آغاز ہی میں کم از کم دو کروڑ انسان موت کی ہولناک وادی میں اتر جائیں گے تابکاری اثرات سے کتنے متاثر ہوں گے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ پاک بھارت ایٹمی جنگ کے نقصانات ان دونوں ملکوں تک محدود نہیں رہیں گے ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ ہمسایہ ملک اٖفغانستان اورچین بھی تبائی کی لپیٹ میں آئیں گے۔

اب سوچنا یہ ہے کہ کیا پاک بھارت ایسی بھر پور جنگ لڑنے کے متحمل ہو سکتے ہیں یا نہیں؟

بظاہر تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا، کیونکہ اُس کی کچھ وجوہات ہیں

پہلی وجہ معیشت ہے اقتصادی ابتری ملک کو دیوالیہ بنا دیتی ہے جنگ ملکی معاشی نقصان کے ساتھ پوری دنیا کی معیشت پراثر انداز ہوتی ہے۔ اقتصادی حوالے سے پاکستان کو پہلے ہی بدحالی کا سامنا ہے، جبکہ دوسری طرف بھارت بھی داخلی انتشار بغاوتوں اور غربت میں الجھا ہوا ہے۔

دوسری وجہ فوجی طاقت اور توازن ہے پاکستان بھارت سے چھوٹا ملک سہی لیکن بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق پاکستان کے پاس کئی معاملات میں فوجی برتری موجود ہے، اس کا ادراک بھارت کو بھی ہے لہٰذا بھارت کبھی فل اسکیل وار کی جانب نہیں جاسکتا۔

تیسری سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں اور دنیا اس وقت جس موڑ پر کھڑی ہے، وہ اس خطے میں کوئی بھی نیوکلیئر جنگ نہیں چاہتی اور نہ عالمی طاقتیں ایسا ہونے ہی دیں گی۔

ان وجوہات کے باعث فل اسکیل وار کا خطرہ کچھ کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ البتہ سرحدوں پر محاذ گرم ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ ماضی میں بھی کئی بار سرحدی کشیدگی اس حد تک بڑھی کہ جنگ صاف نظر آنے لگی لیکن ایٹمی جنگ کے خدشے کے پیش نظر ہر دفعہ جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی اس مرتبہ بھی امید ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت ہوش کے ناخن لیتے ہوئے جنگ سے اجتناب کرے گی۔

جنگ کسی کے مفاد میں نہیں پاکستان نے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ دونوں ملک ایٹمی قوت ہیں، جنگ ہو گی تو پھر جو باقی بچے گا اس کا نام صرف تبائی ہوگا۔

خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ پہلے ہی سے شروع ہے جنگ کی صورت میں مزید تیزی آجائے گی۔ جنگ کی وجہ سے سی پیک کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے کیوں کہ بھارت ساری طاقت چین اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے جمع کر رہا ہے

بعض سیاسی ماہرین کے مطابق بھارت میں الیکشن قریب ہیں اور مودی کی انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال اور نفرت پھیلا کر انتہا پسند ہندوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ موجودہ صورتحال بظاہر بھارت میں الیکشن کی حد تک ہی ہے، الیکشن کے بعد حالات آہستہ آہستہ سازگار ہوتے چلے جائیں گے۔

سیاستدانوں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے بیان بازی سے قبل یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ سرحد کے دونوں جانب کروڑوں لوگ ان کے ایک غلط فیصلے سے تباہی سے دو چار ہو سکتے ہیں اور یہ بھی کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ کئی مسئلوں کی ماں اور بربادی کا پیغام ہوتی ہے

خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایٹمی حملے میں پہل نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور دونوں کا یہی موقف ہے کہ ان کے جوہری ہتھیار دفاعی مقاصد اور دوسرے ملکوں کو جنگ سے باز رکھنے کے لیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).