کشمیر :متشددانہ ڈاکٹرائن کی تجربہ گاہ


پلوامہ میں سکیورٹی فورسز پر خودکش حملہ کے بعد دارالحکومت دہلی یا بھارت کے دیگر صوبوں میں مقیم شاید ہی کسی کشمیر ی طالب علم، تاجر یا فیملی نے سکون سے سانس لیا ہو۔ جمعہ اور سنیچر کی درمیانی رات تو قیامت برپا تھی۔ کشمیر سے متواتر خبریں موصول ہو رہی تھیں کہ جنگی طیارے گھن گرج کے ساتھ فضا میں گشت کر رہے ہیں۔

شمالی کشمیر، جہاں فوج کا سب سے زیادہ جماوٗ ہے، بتایا گیا کہ سوپور، ہندواڑہ وغیرہ میں فوج بیرکوں سے نکل کر سڑکوں پر ٹینک او ربھاری اسلحہ کے ساتھ رواں دواں ہے۔اس کے ساتھ ہی چھاپوں اورسیاسی کارکنان کی گرفتاریوں کی خبریں موصول ہونے لگیں۔ ہزار کوششوں کے باوجود دہلی میں کوئی حاکم آف ریکارڈ بھی یہ بتانے کیلئے تیار نہیں تھا کہ آخر کیا ہو رہا ہے ۔

ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ (آرایس ایس) سے وابستہ ایک کارکن نے ٹویٹ کر کے شوشہ چھوڑا کہ وزیر اعظم نریندر مودی جموں و کشمیر کو دی گئی خصوصی آئینی حیثیت کالعدم کرکے تاریخ میں اپنا نام رقم کروانے والے ہیں۔ کسی ردعمل سے نپٹنے کیلئے وادی کشمیر اور دیگر مسلم اکثریتی علاقوں کو فوج کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

ایک خبر یہ بھی تھی کی پاکستان کو سبق سکھانے کیلئے فوج اور فضائیہ لائن آف کنٹرول کو عبور کرنے والی ہے۔ سنیچر کو جموں میں گورنر انتظامیہ کی طرف سے متواتر ایسے حکم نامے موصول ہو رہے تھے، کہ پوری آبادی کی سانس اٹک گئی۔ صبح سویرے معلوم ہوا کہ نئی دہلی سے سکیورٹی فورسز کی ا ضافی 600 کمپنیاں منگائی گئی ہیں۔

تقریباً14برس بعد سرینگر اور وسطی کشمیر کے علاقہ ایک بار پھر بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے حوالے کئے گئے ہیں۔ اس غیر یقینی صورتحال کے بیچ محکمہ خوراک اور محکمہ صحت کے حکم ناموں نے مزید تنائو اور کشیدگی کا ماحول پیدا کیا ہے۔محکمہ صحت کی جانب سے دو آرڈر صادر کئے گئے جن میں ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ کرکے تمام ضلع چیف میڈیکل افسروں سے کہا گیاہے کہ وہ مرکزی ڈرگ سٹور بمنہ سے ضروری ادویات اور آلات حاصل کریں۔

چیف میڈیکل افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ تمام افسران اور ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ کریں نیز انہیں ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے سٹیشن کوا علیٰ حکام سے رابطے کے بغیر نہ چھوڑیں۔بلاک میڈیکل افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ کس بھی ناخوشگوار واقعے سے نپٹنے کیلئے اپنی ریپڈ رسپانس ٹیموں کو تیار رکھیں۔

ہیلتھ اداروں کے اعلیٰ حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے اداروں کی خود نگرانی کریں اور اپنی اپنی جگہوں پر جائیں۔اس دوران صوبائی انتظامیہ نے وادی میں پیٹرول کی فروخت محدود کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں۔ محکمہ خوراک کی جانب سے ایک حکم نامہ میں راشن کی دکانوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ رات گئے تک مکمل راشن تقسیم کریں۔

ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا ڈپٹی کمشنر نے فون پر بتایا کہ ان کو حکم ملا ہے کہ تمام مجسٹریٹوں کو ڈیوٹی پر بلا کر ان کیلئے علاقوں کا تعین کریں اور اپنے تمام عملہ کی چھٹیاں بھی منسوخ کردیں۔ وہ معلوم کرنا چا ہ رہے تھے کہ کیا میڈیا کو کوئی اطلاع ہے کہ یہ ایمرجنسی حالات کیوں پیدا کئے جا رہے ہیں؟

ضلع مجسٹریٹ تک کو اعلیٰ حکام کچھ بھی بتانے کیلئے تیار نہیں تھے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ پورے دن بعد بھارتی وزارت داخلہ اور گورنر ستیہ پال ملک نے ایک بیان جاری کرکے افواہیں اور دہشت پھیلانے والوں کو متنبہ کیا ، اور تردید کی کہ اضافی فورسز وغیرہ کا خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے یا جنگ کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ انتخابی عمل کے آغاز کی تیاریا ں ہیں۔ اور گرفتاریا ں بھی اسی کا حصہ ہیں۔

جمو ں سے کولکتہ تک اور دہرادون تا مدھیہ پردیش جس طرح کشمیری طلبہ اور تاجروں کو عدم تحفظ کا احساس کرایا گیا ا س کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ حملے کے فوراً بعد پاکستان کے خلاف حکومتی شخصیات، سرکاری عہدیدار اور عام لوگ ایک ہی سْر تال میںپاکستان سے بدلہ لینے کے جوشیلے نعرے لگا رہے ہیں۔

بالفرض عسکری کارروائی کی ذمہ داری جیش محمد قبول نہ بھی کر تی تو بھی اس کے نتیجے میں پاکستان کے تئیں رائے عامہ کا بر ہم ہونا طے تھا، کیونکہ یہ پہلا موقع نہیں تھا ، جب بھارت میں پاکستان کو’’سبق سکھانے‘‘ کے لئے جنگ جنگ جنگ کی آوازیں زورو شور سے اْٹھائی گئیں۔

پارلیمنٹ پر13-12-2001 کے فدائی حملے اور تاج ممبئی میں26-11-2008 کے وقت بھی پاکستان کے خلاف ایک طبقہ نے جنگ تھوپنے کی زوردار مہم چھیڑی تھی مگر اس وقت کی حکومتوں نے اس مانگ کو اپنے غیر معمولی سیاسی فہم وفراست اور بر د باری سے ڈیل کیا۔

مثلاً پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملے کے فوراًبعد جب پاکستان کو اس ضمن میں موردِالزام ٹھہرایا گیا۔گو کہ مسلح افواج کو دس ماہ تک پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پر حالت ِجنگ میں ایستادہ بھی رکھا گیا، مگر وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اپنی شبیہ چوتھی ہند پاک جنگ کے ہیرو کے طور نہیں بنانا چاہتے تھے ، بجائے ا س کے وہ تاریخ میں اپنی شناخت بہ حیثیت ایک صلح پسند سیاسی مدبر کی بنانا پسندکر تے تھے ۔

یہ حکمت عملی ان کیلئے یقینی طور مفید ثابت ہوئی۔ ممبئی واقعہ کے دوران ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت نے بھی حملے کے لئے فی الفورلشکر طیبہ کو ذمہ دار ٹھہراکر پاکستان سے خوب احتجاج کیا ۔ ایک بار ایک مخصوص طبقہ جنگ کی صورت میں پاکستان سے انتقام لینے سے کم پر راضی نہ تھا مگر حکومت نے اعصابی قابو نہ کھویا۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ دونوں مواقع پر واجپائی اور من موہن سنگھ نے فوجی سربراہوں کو طلب کرکے جب جنگ کرنے کیلئے رائے لی ، تو بتایا گیا کہ فوج ایک ہفتہ تک بھر پور جنگ کر سکتی ہے اور اگر یہ طولت اختیار کرتی ہے تو مشکل ہوگی۔ دونو ں بار طے ہو ا کہ سیاسی قیادت جنگ نہ کرنے کے فیصلہ کو اپنا کر ، یہ بھی باور کرے کہ فوج تو بالکل حالت تیاری میں ہے۔

فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان یہ تال میل بھارتی سسٹم کی ایک بڑی خوبی ہے۔ بتایا جاتا ہے تحمل مزاج کے من موہن سنگھ تو میٹنگ میں بحریہ کے سربرا ہ ایڈمرل سریش مہتہ پر خوب برسے، کیونکہ جس وقت ممبئی پر حملہ ہوا ، اسی وقت بحیرہ عرب میں بحریہ کی جنگی مشقیں جاری تھیں۔

من موہن سنگھ جاننا چاہ رہے تھے کہ اگر مشقوں کے وقت بھی بحریہ یہ حملہ نہیں ٹال سکی تو وہ کیا حفاظت کرسکتی ہے؟ ماضی کے برعکس ٹیلی ویڑن چینلوں میں قوم پرستی کے نام پر ایک ایسے زہر یلے رجحان کو فروغ دیا جا رہا ہے جو کسی بھی صورت میں کسی بھی ملک کیلئے مجموعی طور نحوست آمیز ہے۔

صورت حال اس قدر دگر گوں کے کہ خوف کے باعث بھارت کی سیکولر جماعتوں نے بھی کشمیری طالب علموں پر ہورہے حملوں پر خاموشی اختیار کیا الا ٹی وی چینل ا ن کو قوم دشمن نہ قرار دیں۔مسئلہ کشمیر نے پورے خطے کی سیاست ، معیشت، تجارت، معاشرت اور پرواز ترقی کو بری طرح بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔

کئی ایسی تجارتی شاہراہیں ہیں جو ترقی کی ضامن ہیں مگر صرف اس مسئلہ کی وجہ سے بند پڑی ہیں۔ کشمیری چاہے اپنی وادی میں رہ رہے ہوں چاہے وادی باہر وہ ایک نرغے میں پھنس چکے ہیں جہاں نہ آرام سے جینے کی جگہ ہے نہ راحت و سکوں سے سانس لینے کا امکاں ہے۔

ا س وقت دلی کو خاص کر ایسے سیاسی مدبرین ، پالیسی سازوں اور سفارت کاروں کی ضرورت ہے جو امن کی پْروائیاں چلاکر مسائل حل کر نے میں ہی کوشاں نہ رہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ساتھ بر صغیر کے عوام کو بھی راحت اور سکون کی سانس لینے کا موقع دینے کی مثبت پہل کریں۔

اس سلسلے میں بحالی اعتماد کے اقدام کے طور کشمیر کوکسی متشددانہ ڈاکٹرائن کی تجربہ گاہ بنانے کے بجائے یہاں کے نوجوان طبقے کے ساتھ نرم روی کا انداز اور دوستانہ اسلوب اختیار کیا جائے تاکہ یہ حساس طبقہ خود کو بے دست وپا دیکھ کر عادل احمد ڈار بننے پر مجبور نہ ہو۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).