آغا سراج درانی کی گرفتاری اور ستر سالہ احتساب کی روداد۔


پچھلے دنوں آغا سراج درانی کی گرفتاری کی میڈیا پر چلتی تصاویر دیکھ کر کچھ سوچنے پر مجبور ہوا۔ ایک تصویر میں دیکھا کہ اسپیکر سندھ اسمبلی کو ایک اہلکار گردن سے پکڑ کر بکتر بند گاڑی سے نیچے اتارہا ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ یہ تو کوئی نئی بات نہیں یہ گردن اسپیکر سندھ اسمبلی کہ نہیں یہ سندھ کی اجتماعی شعور کی گردن ہے جس کو وفاقی حکومت کا اہلکار گردن سے پکڑ رہا یہ مگر یہ تو پچھلے ستر سال کی روش ہے۔

میری گھری سوچ میں کچھ عیاں ہونے لگا کہ کس طرح سندھ کے وزیراعلی ایوب کھوڑو کو مجبور کیا جاتا رہا کہ کراچی کو وفاق کے حوالے کیا جائے اور پھر۔ ایوب کھڑو کو کس طرح ہٹایا گیا۔ پھر ایک نظر پڑی تاریخ کے سب سے زیادہ پاپولر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جیل میں ہونے والی روش پے اور کس طرح ان کو پھانسی پے لٹگایا گیا۔ پھر مجھے یاد آیا کہ سکھر جیل میں ہونے والے بینظیر بھٹو پے مظالم جو کہ شہید بینظیر بھٹو نے اپنی کتاب دختر مشرق مین بیان کئیے اس حد تک کہ تیز گرمی مین شہید بینظیر بھٹو کو طویل عرصے تک جیل میں رکھا گیا۔

سندھ اور وفاق کی چپقلش نئی بات نہیں ہے یہ تو ہوتا رہتا ہے یہ روش نہ صرف سندھ بلکہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ روا رکھی جاتی ہے۔ وہ نوروز خان ہو یا ولی خا یا پھر ایم آر ڈی کے اسیران اور شہدا جمہوریت۔ مگر یہ سب ہوتا کیوں ہے کیا صرف یہ وسائل پر قبضہ کرنے کی لڑائی ہے۔

وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی سندھ اسمبلی مین حالیہ تقاریر اس بات کا احاطہ کرتی ہیں کہ وفاق سندھ کے وسائل پر دائمی قبضہ کرنا چاہتا ہے جس کی مثال اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی سازش ہے۔ مراد علی شاہ جن کے پاس سندھ کی محکمہ خزانہ کا بھی قلمدان ہے وہ اس بات کی بھی نشاندہی کررے ہیں کہ وفاق سندھ کو پئسوں کی قسط کئی ماہ سے نہیں دے رہا جس سے سندھ میں شدید معاشی بحران جنم دے رہا ہے، سندھ وہ واحد صوبہ ہے جس میں پولیس بھی سندھ حکومت کے کنٹرول میں نہیں بات اس حد تک جا پہنچی کہ پی ٹی آئی ایم این اے وزیراعلی ہاؤس پر چڑھ دوڑتا ہے مگر پولیس خاموش تماشائی بنی کھڑی رہی۔ شاید اس لئے کہ پولیس کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں مگر یہ آخر سب کیوں ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ستر سال کی تاریخ ہی دے سکتی ہے۔

پھر مجھے یاد آیا کہ ایک ایسا وقت آیا جب جام صادق علی کی حکومت میں سندھ کے پارلیمینٹیرینز سمیت سیاسی ورکرز کو کس طرح عتاب کا شکار بنایا گیا اور کس طرح ایم پی ایز کو پولیس کی جیپوں میں اندر بیٹھے ہوئے دوران گرفتاری زدوکوب کیا جاتا رہا۔ یہ ایک لا متناہی قصہ ہے جو کہ جنرل مشرف کے دور میں بھیانک روپ لے کر ثابت ہوا۔ تمام سیای ورکرز وکلا سول سوسائیٹی اس کا شکار رہی وہ جاوید ہاشمی پر ٹارچر ہو یا جہانگیر بدر اور یوسف گیلانی کی جیل کے ایام۔ یا اعتزاز احسن اور آسمہ جہانگیر پر برستی لاٹھیاں۔ یا شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے استقبال کے لئے آئے ہوے سینکڑوں جانثاروں کی شہادت۔

بات کہاں سے نکلی کہاں پر ختم ہوئی یا شاید ختم ہی نہ ہو۔ مگر سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے ساتھ ہونے والے رویے کی مذمت ہونی چاہیے۔ پاکستان مین سیاست کے نام سے اتنی چڑ کیوں ہے عمران خان نے تو کمال ہی کردیا جب اس نے سیاست کے عظیم مینار وزیراعظم ہاؤس کے ساتھ نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کے برتن اور بھینسین تک بیچ ڈالی۔ سیاست سے اتنا ڈر کیوں ہے یہ کون لوگ ہیں جو اتنا خائف اس سیاسی پروسیسی سے۔

یہ کون لوگ ہیں کیوں خائف ہیں پاکستان مین سیاست کو بڑھتا ہوا دیکھ کر۔ بڑی مشکل سے تو ایک دہائی گزری اس نظام کو جس میں کئی وزراعظم کو عھدوں سے عدلیہ کے بدولت ہٹایا گیا مگر نظام کو ڈی ریل ہونے نہیں دیا گیا کیا۔

اب سندھ مین گورنر راج لگانے کی سازش کو پروان چڑھایا جا رہا ہے کیا سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی گرفتاری اس بات کا عندیہ ہے کہ سندھ اسمبلی پر ضرب لگائی جا سکتی ہے۔ کیا اس بات کا اندازہ ہے کہ سندھ کے عوام کس حد تک اس بات کا رد عمل ظاہر کرتے ہیں جو پہلے ہی عتاب کا شکار ہین اور وفاق کی طرف پہلے ہئی انگلی اٹھاتے رہتے ہیں میرے خیال میں سندھ مے ہمیشہ غیر جمہوری سازش کے خلاف آواز اٹھائی ہے اس دفعہ بھی سندھ اس کے لئے تیار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).