آئیے! امن کی بات کرتے ہیں


ادھر آ اے دلبر، ہنر آزمائیں
تو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں

اپنے محبوب کی سنگدلی کو کیا خوب شاعر نے اس شعر میں بیان کیا ہے، عام طور پر اس طرح کی شاعری عاشقی معشوقی میں کی جاتی ہے لیکن اس شعر کا یہاں ذکر کرنا اس لیے مناسب تھا کہ پلواما حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کا تعلق بھی ایک ایسے عاشق اور معشوق کی حالت جیسا ہوگیا ہے جو کہ ظلم کرتا ہے لیکن پھر بھی محبت کرنے والا اسے محبت کا پیغام ہی بھیجتا ہے یاد ماضی کی تلخ حقیقتوں سے نکل کر حال کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہر پیغام کو زہر آلود نیزے پر چڑھا کر واپس کر دیا جاتا ہے۔

بد قسمتی سے پچھلے ستر سالوں سے انڈیا پاکستان تعلقات اس نہج تک نہیں پہنچ سکے کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان محبت اور بھائی چارہ اس لیول تک بڑھے کہ بنا خوف و خطر ایک دوسرے سے مل سکیں، بارڈر کراس کر سکیں۔ بہت سے ایسے خاندان پاکستان میں موجود ہیں جن کے رشتہ دار انڈیا میں مقیم ہیں لیکن دونوں ممالک کی سو کالڈ جمہوری روایات ان کے آڑھے آجاتی ہیں۔

پلواما حملے کے بعد کی صورت حال سے پاکستان اور انڈیا کا ایک ایک بچہ واقف ہو چکا ہے کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح انڈیا نے پاکستان پر حملوں کا الزام لگایا، وہ بھی اس وقت جب پاکستان میں سعودی عرب کے ولی عہد دورہ پر تھے۔ اکثر فلموں اور ڈراموں میں ایک کردار ایسا ہوتا ہے جو کسی کی ترقی برداشت نہیں کر سکتا، وہ آپ کا رشتہ دار بھی ہو سکتا ہے وہ آپ کا قریبی دوست بھی ہو سکتا ہے اور وہ آپ کا ہمسایہ بھی ہو سکتا ہے۔ بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے لیکن ہمسایوں جیسا سلوک کرنے سے قاصر ہے۔

الیکشن کے فوری بعد وزیر اعظم کی طرف سے انڈیا کو واضع پیغام دیا گیا کہ آپ ایک قدم آگے بڑھائیں ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے، کھلم کھلا انڈیا کو دعوت تھی کہ آئیں مل کر چلتے ہیں، آئیں اس خطے کو امن کا گہوارہ بناتے ہیں۔ آئیں دہشتگردی کے خلاف مل کر جنگ لڑتے ہیں لیکن اس دعوت کو ہوا میں اڑا دیا گیا۔

جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاک بھارت وزرائے خارجہ کی میٹنگ طے تھی جو نہ ہوئی۔ اس کے بعد کرتار پور کوری ڈور کا کھلنا، جنرل باجوہ کا تمام پروٹوکول توڑ کر انڈین منتری کو گلے لگانا یہ محبت کا پیغام نہیں تو کیا ہے؟

ایک انڈین نیوز چینل کی طرف سے مجھے کال پر لے کر میرا موقف جاننے کی کوشش کی گئی کہ آپ کا وزیر اعظم عمران خان کہتا ہے کہ ہمیں ثبوت دیں ہم کارروائی کریں گے، تو جب جیش محمد کا ترجمان خود اعتراف کر رہا ہے کہ انہوں نے یہ حملہ کرایا ہے تو ثبوت باقی نہیں ہیں کیا؟ یہ سوال اس پینل میں بیٹھے ایک ریٹائرڈ برگیڈئیر کی طرف سے کیا گیا۔ میں نے انہیں جواب تھا کہ ہم نے پہلے بھی امن کا پیغام بھجوایا، اب بھی بھجوا رہے ہیں، ہم اپنے وزیراعظم کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کی زبان کا ایک ایک لفظ پورے پاکستان ے عوام کا موقف ہے، اور جس ویڈیو بیان کی۔ ”کنفیشنل سٹیٹمنٹ“ کی آپ بات کر رہے ہیں اگر وہ سٹیٹمنٹ اتنی اہم ہے تو کلبھوشن کا کیس آپ انٹرنیشنل کورٹ میں کیوں لے کر گئے ہیں؟ جس کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔

یقینا یہ جواب ان کے پاس تھا بھی نہیں۔ پلواما حملے کے بعد وزیراعظم عمران خان اور پھر ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیانات اور پریس کانفرنس سے انڈیا کوایک بات کا یقین ہو جانا چاہیے کہ پاکستان کا اس حملے میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔

آج صبح خبر دیکھی کہ پلواما حملے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے باوجود پاکستانی حکومت نے وساکھی میلہ اور خالصہ جنم دن کا شیڈول طے کردیا اور شیڈول کے مطابق 3 ہزار بھارتی یاتریوں کو 10 روزہ یاترہ ویزہ اشو کیا جائے گا، اس کے ساتھ ہی اگلی خبر پر نظر پڑی کہ مارچ میں بھارت کے شہر بنگلور میں اسنوکر ایونٹ ہونا تھا جس کے لیے پاکستانی کیوسٹ (کھلاڑیوں ) کو ویزے جاری نہیں کیے گئے، ان کو ریجکٹ کردیا گیا ہے۔

پاکستان بارڈر کھولتا ہے انڈیا حملہ کرا دیتا ہے، پاکستان امن کی بات کرتا ہے انڈیا جنگ کی بات کرتا ہے، پاکستان تجارت کی راہیں کھولتا ہے انڈیا تجارت بند کردیتا ہے، پاکستان انڈیا کے لیے ویزہ پالیسی میں نرمی اختیار کرتا ہے تو انڈیا سختی کردیتا ہے۔ پاکستان کھیلوں کے فروغ کے لیے دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو انڈین پلئیرز کھیل کو بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیتے ہیں۔

کب تک ایسا چلے گا، کب تک انڈین میڈیا پاکستان مخالف پروپیگنڈا کو عروج پر لے جا کر پوری دنیا کے سامنے مظلوم بننے کی کوشش کرتا رہے گا؟ کب تک ہندوستان کے الیکشن صرف پاکستان دشمنی کی پالیسی پر جیتے جائیں گے؟ کب تک ہندو مسلم فسادات کو ہوا دے کر خون میں زہر گھولنے کا عمل جاری رہے گا؟ کب تک معصوم کشمیریوں کو دن دیہاڑے قتل کیا جائے گا؟

ماضی میں کی گئی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا، امن کا راستہ اپنانا ہوگا، محبت سے رہنا ہوگا، جنگ حل نہیں ہے، ہتھیاروں سے معاملات بگڑتے ہیں سنورتے نہیں ہیں، دونوں ایٹمی طاقتیں اگر لڑ پڑیں گی کی کون جیتا اور کون ہارا؟ یہ بتانے کے لیے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ مودی سرکار کو جو پتا ہے الیکشن سے پہلے ووٹ حاصل کرنے کا وہ چال وہ چل چکا ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکا ہے، لیکن سمجھدار اس کی چال کو سمجھتے ہیں بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں۔ آئیے جس امن اور بھائی جارے کی بات ہندوی فلموں میں کی جاتی ہے اسے حقیقی جامہ پہنائیں۔ آئیے امن کی بات کرتے ہیں۔ بہت ہوا خون خرابہ، آئیے اب مل بیٹھتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).