کہیں کچھ رہ تو نہیں گیا؟


اولاد کو بہترین تعلیم سے آراستہ کرنا اور ان کی تربیت عمدہ ڈھب پر کرنا سب والدین کی خواہش ہوتی ہے وہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب ہو اور اس کی ہر کامیابی پر ان کا سرفخر سے اونچا ہوجائے۔ گوکہ تربیت کی ذمہ داری دونوں والدین پر آتی ہے مگر ہمارے معاشرے میں تربیت کی بیشتر ذمہ داری ماں کے کاندھوں پر ہوتی ہے بچے اچھا کریں تو کریڈٹ والد بھی لینے کو تیار ہوتے ہیں مگر جہاں برا ہو وہاں قصور ماں پر ڈال دیا جاتا ہے۔

مائیں اپنے لحاظ سے تربیت بہترین کرتی ہیں مگر میں آج آپ سے کچھ ایسے نکات شیئر کرنے جارہی ہوں جنھیں مائیں نہ چاہتے ہوئے بھی درگزرکردیتی ہیں اور انھیں اپنے تربیتی نکات میں شامل نہیں کرپاتی جو بے حد ضروری ہیں

صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا

اکثر و بیشتر گھروں میں ہاتھ دھو کر تولیہ سے سکھانا عادات میں شامل ہوتا ہے بالکل اسی طرح نہا دھو کر بھی تولیہ سے جسم کو سکھایا جاتا ہے تو بچوں میں اس بات کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہاتھ دھو کر تولیہ سے سکھائے اسی لیے جب وہ کسی ہوٹل میں یا پھر رشتہ داروں کے گھر جاتے ہیں تو وہ لٹکے ہوئے تولیہ سے ہاتھ اور منہ سکھاتے ہیں جس سے جراثیم لگنے کا خطرہ ہوتا ہے اور بچے بیمار ہوسکتے ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ بچوں کو یہ بات سمجھائے جائے کہ انھیں صرف اس تولیہ کا استعمال کرنا ہے جو گھر میں ان کے استعمال کے لیے موجود ہیں نہ کہ کہیں بھی اور کسی کے بھی تولیہ کو استعمال کرلے کیونکہ جراثیم ہر جگہ موجود ہوتے ہیں جو کبھی بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

اجازت لینا

چونکہ پاکستانی معاشرہ میں جوائنٹ فیملی سسٹم رائج ہے تو کزنز ساتھ کھیلتے کودتے اور ایک دوسرے کے کھلونے استعمال کرتے ہیں اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بہن بھائی تو مل کر کھیلتے ہیں اس لیے کتابیں، کھلونے سب مل جل کر استعمال کرتے ہیں شیئرئینگ کرنا ایک اچھا عمل ہے مگر جب ایک دوسرے کی چیزیں بغیر اجازت کے استعمال کرنے کی عادت ہوجائے تو پھر یہیں رویہ کسی دوسرے گھر جاکر بھی بچے اپناتے ہیں اور بغیر اجازت کے بچوں کے کھلونے سے کھیلنا شروع کردیتے ہیں کبھی کبھار تو اس عمل کو برداشت کرلیا جاتا ہے اور کبھی بچوں کو سرد رویہ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے وہ دل برداشتہ ہوجاتے ہیں اس لیے یہیں بہتر ہیں کہ بچوں کو یہ تربیت دیں کہ وہ بہن، بھائی اور کزنز کی چیزوں کو بغیر اجازت استعمال نہیں کریں تاکہ انھیں زندگی میں دیگر مواقع پر شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔

انکار کرنا

ہمارے معاشرہ میں تربیت کا پہلا اصول یہ ہوتا ہے کہ مائیں بچوں کو یہ سیکھاتی اور سمجھاتی ہیں کہ انھیں بڑوں کی عزت کرنی ہے، بڑوں سے بدتمیزی نہیں کرنی، ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کرنی، بڑوں کی عزت کرنا ضروری ہے اور بچوں کو بھی یہ بات سمجھانا اور سیکھانا کہ وہ بڑوں کی عزت کریں اہم ہے مگر اس بات کو حد سے زیادہ بچوں کے ذہن میں بیٹھانے کا نتیجہ ہمیشہ مثبت ہی نکلے ایسا ممکن نہیں

ہوسکتا ہے کہ کبھی کوئی بڑا آپ کے بچہ کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور آپ کا بچہ آپ کے پڑھائے ہوئے سبق کہ بڑوں کی عزت کرنی ہے کہ زیر اثر انکار نہیں کرسکیں اور اپنا دفاع کرنے میں بھی ناکام ہوجائے اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے بچہ کو سیکھائے کہ ضروری نہیں ہمیشہ بڑوں کا رویہ آپ کے ساتھ درست ہو اگر آپ کو کسی بڑے کا رویہ برا لگتا ہے تو آپ نے اس کا اظہار کرنا ہے اور انکار بھی کرنا ہے کیونکہ اپنی حفاظت سب سے ضروری ہے بعد میں بڑوں کی عزت و تکریم کرنا بھی آپ پر فرض ہے۔

کمیونیکشن گیپ

ہم آج جس دور میں جی رہے ہیں وہاں سوشل میڈیا نے کسی عفریت کی طرح ہمیں جکڑ رکھا ہے سات، آٹھ سال کے بچوں کی بھی ایف بی آئی ڈی موجود ہیں اور وہ اس پر کافی ایکٹیو دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے بچے دوستوں کے قریب ہوجاتے ہیں اور ماؤں سے دور اور ایسے میں مائیں ان کی ذہنی کشمکش یا پھر دیگر سوچ بچار کو جاننے سے محروم رہتی ہے تو کیوں نہ آپ اپنے بچوں کو یہ بات سمجھائے کہ ٹھیک ہے کہ وہ کمپیوٹر یوز کررہے ہیں اور ان کے آن لائن فرینڈز بھی ہیں مگر اگر کوئی ان کی بیسٹ فرینڈ ہے تو وہ ماما ہے اس لیے انھیں ہر بات اپنی ماما سے شیئر کرنی ہے ان کا کون بیسٹ فرینڈ ہے وہ اس کے ساتھ کیا کھاتے پیتے ہیں تاکہ کم ازکم آپ کا بچہ جب تک غلط، صحیح کی پہچان کی عمر تک نہیں پہنچے وہ آپ سے قریب رہے اور آپ کو بھی اس کی ہر فعل کے بارے میں علم ہو کیونکہ کبھی کبھار لاعلمی وہاں لے جاتی ہے جہاں جانے کا تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔

ایڈجسٹ کرنا

آج کل مختلف خاندانی تقریبات میں مائیں بڑے فخر سے یہ بات بتا رہی ہوتی ہیں کہ میرا بیٹا دال نہیں کھاتا، میری بیٹی کو سبزی نہیں پسند مجھے تو روز یہیں سوچنا ہوتا ہے کہ کیا ایسا بناؤں کہ وہ شوق سے کھالے۔ پسند، ناپسند سب اپنی جگہ اپنے گھر میں ناک بھو چڑھا لینا، نہیں کھانا، نخرے دیکھالینا قابل قبول مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ سمجھانا بھی ضروری ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کبھی کہیں آپ کو یہیں دال کھانی پڑے تو آپ کو کھانی ہے اور سبزی بھی کوئی بری چیز نہیں کیونکہ زندگی میں ایڈجسمنٹ بہت ضروری ہے کبھی کبھار آپ کو اپنی فیورٹ چیز کسی اور کی وجہ سے چھوڑنی پڑتی ہے اور یہ کوئی اتنی بری بات بھی نہیں وقتی ایڈجسمنٹ آپ کو بہت آگے لے کے جاسکتی ہے۔

اگر ہم آج سے بیس، پچیس سال پیچھے چلے جائے تو والدین کے لیے تربیت کرنا شاید ایک آسان مرحلہ تھا کیونکہ نفسا نفسی کا دور نہیں تھا ایک

دوسرے سے آگے نکلنے کی ریس نہیں تھی دال، سبزی اور بہن بھائیوں کا ساتھ ہی خوشیوں کا باعث تھا مگر آج حالات بہت بدل گئے ہیں بہت سی چیزیں منظر پر یوں آگئی ہیں جن کا سامنے آنا ایک وقت میں معیوب سمجھا جاتا تھا اس لیے آج کل ماؤں کو بھی انداز بدلنے کی، سوچ بدل کر اور رویہ بدل کر تربیت کرنے کی ضرورت ہے اس لیے وہ نکات جنھیں بہت معمولی سمجھا جاتا ہے آج انھیں اہم سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ زندگی میں کسی بچھتا وے کو جگہ نہیں دی جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).