بغیر ٹیسٹ وانٹرویو اساتذہ کی بھرتیاں، تعلیم دشمن اقدام


ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کی حکومت کے قیام کے بعد بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی گئی۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد پہلے مرحلے میں تعلیمی بجٹ میں چار فیصد سے اضافہ کرکے 24 فیصد کردیا گیا۔ اساتذہ کی کمی کے پیش نظر این ٹی ایس کے ذریعے صوبے بھر میں پانچ ہزار اساتذہ کی تعیناتیاں عمل میں لائی گئیں۔ اس کے ساتھ نواب اسلم رئیسانی کے دور حکومت میں حقوق بلوچستان پیکیج کے تحت بھرتی ہونے والے ہزاروں اساتذہ کو مستقل کیا گیا۔

حکومت نے تعلیمی نظام میں بہتری کے ساتھ نقل کے خاتمے کے لئے بھی اقدامات شروع کیے اور بعض امتحانی سینٹروں میں کیمرے تک نصب کیے گئے۔ حکومت نے غیرحاضری پر اساتذہ کے خلاف محکمانہ کارروائیاں بھی کیں جس کی وجہ سے کافی حد تک بہتری آئی لیکن اس حد تک بہتری نہیں آسکی جس کا صوبائی حکومت نے عوام سے وعدہ کیا تھا۔

بلوچستان میں اس سے قبل سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ہوتی رہیں۔ سیاسی بنیادوں پر تعینات ہونے والے اکثر اساتذہ کی تعلیمی قابلیت میٹرک تک تھی۔ ایسے اساتذہ ایک طرف تو حکومتی خزانے پر بوجھ تھے دوسری جانب قوم کے معماروں کے مستقبل کی تباہی کا باعث بنتے رہے۔ آج سے چند سال قبل تک کوئٹہ سے باہر دیگراضلاع کے تعلیمی ادارے سکول کم وڈیرہ، سرداروں اور سرمایہ داروں کے بیٹھک زیاد ہ لگتے تھے۔ دور دراز علاقوں میں تعلیمی اداروں کی عمارتیں جانوروں کی پرورش کے لئے استعمال ہوتی رہیں۔ بعض علاقوں میں قبائلی دشمنیوں کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی عمارتیں بھی بچ نہیں سکیں۔ جن علاقوں میں قبائلی تنازعات ہیں وہاں آج بھی سکولوں کی عمارت کھنڈرات کامنظر پیش کرتی ہیں۔

گزشتہ سال تعلیم پر کام کرنے والی ایک تنظیم الف اعلان نے اپنی ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ بلوچستان میں خواندگی کی شرح پاکستان میں سب سے کم 34 فیصد ہے جبکہ خواتین کی تعلیم کی شرح 27 فیصد ہے۔ اس وقت بلوچستان میں 5 س ے 16 سال کی 75 فیصد بچیاں سکولوں سے باہر ہیں۔ اس کے علاوہ جو بچیاں تعلیم حا صل کر رہی ہیں ان میں سے اکثر بچیاں میٹرک پاس کر نے کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ نہیں پاتیں۔

الف اعلان کے مطابق آرٹی آئی قانون کے تحت محکمہ تعلیم، بلوچستان ایجوکیشن فاونڈیشن اور بی ای ایم آئی ایس سے لی گئی معلومات کے مطابق اس وقت بلوچستان میں 3488 گرلز سکول، 22 انٹر کالجز اور 14 ڈگری کالجز ہیں۔ ان تمام تعلیمی اداروں میں 17 ہزار 693 خواتین اساتذہ تعینات اور چار لاکھ اسی ہزار کی قریب بچیاں زیرتعلیم ہیں۔

بلوچستان میں عام انتخابات کے بعد میرجام کمال جب بلوچستان کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو انہوں نے تعلیم کے شعبے کو اپنی پہلی ترجیح قرا ر دیتے ہوئے اساتذہ کی کمی دور کرنے کا اعلان کیا۔ چھ ماہ گزرنے کے باوجود بلوچستان میں اساتذہ کی بھرتیاں نہیں ہوسکیں، پچھلی حکومت میں بھی ہزاروں اساتذہ کی تعیناتیوں کا وعدہ کیا گیا تھا جو وفانہ ہوسکا۔

بلوچستان میں تعلیمی ایمر جنسی کی نفاذ کے باوجود 2016۔ 17 اور 2017۔ 18 کے صوبائی بجٹ میں تعلیمی بجٹ 2 ارب روپے بجٹ منظور ہونے کے باوجود استعمال نہ ہوسکا اور 2 ارب روپے لیپس ہوکر واپس ہوگئے۔

حکومت نے اب اساتذہ کی بھرتیوں کے لئے ایک نیا طریقہ انٹرن شپ پروگرام متعارف کرایا ہے۔ پروگرام کے تحت اساتذہ کی بھرتیاں زیادہ نمبر ز کی بنیاد پر کی جائیں گی۔ جس کے نمبروں کا تناسب سب سے زیادہ ہوگا اس کو میرٹ لسٹ میں سب سے اوپر رکھا جائے گا۔ اساتذہ عارضی بنیادوں پر تعینات کیا جائے گا۔ اساتذہ کی تعیناتیوں کے لئے ٹیسٹ وانٹرویو نہیں ہوگا۔

بلوچستان کے اساتذہ میں پہلے سے ہی قابلیت کا فقدان ہے، جس کا واضح ثبوت اقوام متحدہ انٹر نیشنل چلڈرن ایمر جنسی فنڈ (یونیسف ) کے تحت صوبے کے 12 اضلاع میں منعقد کیے گئے امتحانات کے نتائج ہیں۔ یونیسف کے نمائندوں نے گریڈ ایک سے آٹھ تک کے اساتذہ کا انٹر ویو بھی کیا امتحانی نتائج کے مطابق سائنس کے مضمون میں اساتذہ صرف 25 فیصد مارکس حاصل کر سکیں۔ عالمی ادارے نے اردو، سائنس اورریاضی کے مضامین میں ٹیسٹ لئے جس میں سے 5 سو اساتذہ گریڈ پانچ اور 652 اساتذہ گریڈ آٹھ میں پڑھاتے ہیں۔

بغیر ٹیسٹ وانٹرویو اساتذہ کی تعیناتیاں بلوچستان کو مزید تعلیمی پسماندگی کی طرف دھکیلیں گی۔ محکمہ تعلیم سمیت بلوچستان کے ہرشہری کو معلوم ہے کہ صوبے میں نقل کا ناسور معاشرے میں کتنی سرایت کرچکا ہے۔ بلوچستان میں اگر دس طلباء اپنی محنت سے پاس ہوتے ہیں تو بیس نقل کر کے پاس ہوتے ہیں۔ زیادہ نمبرز حاصل کرنے کے لئے امتحانات میں شریک اکثر امیدوار صوبے کے دیگر اضلاع میں آسان امتحانی مراکز کی طرف ٹرانسفر کراتے ہیں۔ جہاں انہیں آسانی سے نقل کر نے کا موقع ملتا ہے اور وہ زیادہ نمبرز حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

اکثر قابل طلباء وطالبات اتنے نمبر ز حاصل نہیں کرپاتے جو نقل کرنے والوں طلباء وطالبات نے آسانی سے حاصل کیے ہوتے ہیں۔ زیادہ نمبر ز کے فارمولے پر اگرتعیناتیاں ہوتی ہیں تو وہ قابل نوجوان طلباء وطالبات پیچھے رہ جائیں گے جن کے امتحان میں نمبرز کم آئے ہوں۔ حکومت کے اس اقدام سے ملک کا سب سے پسماندہ اور تعلیمی لحاظ سے آخری نمبر پر موجو د صو بہ مزید تعلیمی پسماندگی کی طرف جائے گا جس کا ازالہ مزید مشکل ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).