کبھی عوام سے بھی پوچھیے حال دل؟


اب تک کے حکومتی اقدامات سے عوام میں خوشی کی لہر نہیں ابھر سکی وہ پہلے بھی مایوس تھے اب بھی ہیں حکومت مگر انہیں یقین دلا رہی ہے کہ بس جلد وہ خوشحالی کا در وا ہوتا دیکھیں گے کیونکہ چند امیر ممالک یہاں سرمایہ لانے کا پروگرام بنا چکے ہیں جس سے ملکی معیشت ایک ہی جست میں اوپر جا سکتی ہے لہٰذا غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے؟

عوام کا کہنا ہے کہ ایسے دعوے ماضی میں بھی کیے جاتے رہے ہیں، منصوبے بھی بنتے رہے ہیں، معاہدے بھی کیے گئے اور وفود کا تبادلہ بھی ہوتا رہا مگر ان لوگوں کے تب بھی نہیں پھرے لہٰذا وہ مطمئن نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حکومت کے وعدوں سے کہ وہ جو کہتی ہے اس پر من و عن عمل بھی کر پائے گی۔ شاید ایسا اس لیے ہوا ہے کہ وہ (حکومت) احتساب پر بڑی شد و مد کے ساتھ کہہ رہی تھی کہ احتساب ہو گا اور بلا تفریق ہو گا۔ ملک سے باہر گیا پیسا واپس لایا جائے گا مگر اب ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا احتساب کسی بڑے کا نہیں ہو رہا جو ہو رہا ہے وہ محض دکھاوا ہے؟

جاوید خیالوی کا تجزیہ ہے کہ یہ جو احتساب کا شور تھا اس لیے تھا کہ عوام میں یہ سوچ پیدا ہو رہی تھی کہ حکمران طبقوں میں دولت کی جو روانی ہے ان کی ہی ہے ان کی وجہ سے ہے لہٰذا ان سے چھین لی جائے تا کہ وہ بھی زندگی کی سہولتوں سے استفادہ کر سکیں۔ اس حوالے سے روز بروز بے چینی بڑھتی جا رہی تھی اور وہ کسی انقلاب کی راہ تکنے لگے تھے کیونکہ وہ برسوں میں نہیں دنوں میں موجود منظر کو بدلتا دیکھنا چاہتے تھے لہٰذا انہیں عمران خان کی صورت ایک ”انقلابی“ میسر آ گیا اور وہ آس کا دیا روشن ہوتا دیکھنے لگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب جب وہ اپنے احتساب کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آ چکے ہیں تو لوگ چھ ماہ گزرنے پر نتائج نہیں دیکھ سکے لہٰذا وہ مایوس ہو گئے ہیں؟

انہیں بھی لگ یہی رہا ہے کہ ایک بار پھر وہ بیوقوف بنا دیے گئے ہیں وہ ایک خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ پی ٹی آئی کا سربراہ جو کہتا ہے کر دکھاتا ہے لہٰذا انہیں اس کا ساتھ دینا چاہیے وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس نے جو اِدھر اُدھر سے بڑے نام والے سیاستدان اپنے گرد جمع کر لیے ہیں ”محفوظ پناہ گاہ“ کے خیال سے ان کے پاس آئے ہیں مگر چونکہ کپتان کہتا تھا کہ اوپر کی قیادت ٹھیک ہو تو سب ٹھیک ہو جاتا ہے لہٰذا وہ یقین کر بیٹھے اب جن سے آغاز کیا گیا تھا احتساب کا وہ بھی نہاتے دھوتے ثابت ہو رہے ہیں ثبوت کسی کو نہیں مل رہا۔ جو ملتا بھی ہے وہ ڈھلمل سا لہٰذا پوتر ہونے کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں؟

اگر وہ (عمران خان) سمجھتے تھے کہ ملک کی دولت خورد برد ہوئی ہے تو اس کے لیے کوئی آرڈیننس کیوں جاری کر کے وصول نہیں کی گئی معمول کی کارروائیاں کیوں کی گئیں کہ جن میں بچنے کے سو راستے ہوتے ہیں مگر سب ایک خواب تھا جو پورا نہیں ہونا تھا۔ اب جب یہ کہا جا رہا ہے کہ پیسے ہر سمت سے آ رہے ہیں تو اس پر یقین نہیں کیونکہ اس سے عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا نہیں ہوسکیں گی کیونکہ عوام کی حالت بدلنے کے لیے بڑے فیصلے کرنا پڑتے ہیں جو اشرافیہ نہیں کرے گی۔

بہرحال یہ بھی ممکن نہیں کہ عوام کو یکسر نظر انداز کیا جائے اور وہ واویلا نہ کریں احتجاج کی راہ پر نہ آئیں اور انصاف کی زنجیر نہ ہلائیں اگر وہ مسلسل اذیتیں برداشت کریں گے اور حکمرانوں کے شاہانہ رہن سہن کو دیکھیں گے تو لازمی ہے کہ ان کے ذہن میں نفرتوں کے طوفان اٹھیں سوال یہ ہے کہ کیا ذمہ داران اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ کئی بار عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ عوام اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں جو ان پر فہم و ادراک کی کھڑکیاں کھولے چلے جا رہی ہے۔ اب حیات کے تقاضے مختلف ہیں نئی و جدید ٹیکنالوجی نے ذہنوں کو بدلنے کا آغاز کر دیا ہے اس میں استحصالی حربے و ہتھکنڈے اب روایتی استعمال نہیں ہو سکتے کہ لوگوں کو احمق و اُلو تصور کیا جائے اور وہ اپنے تئیں یہ سمجھ لیں، نہیں ایسا نہیں!

اب انہیں حقوق دیے جائیں وہ ستر اکہتر برس سے غربت، افلاس اور تنگدستی کی زندگی بسر کرتے آئے ہیں اور اس امید کے ساتھ زندہ ہیں کہ انہیں ضرور انصاف ملے گا مگر اگر اب بھی انہیں بھول بھلیاں میں ڈالا جاتا ہے اور اشرافیہ ان پر کالے قوانین کا نفاذ کرتی ہے تو ردعمل بھی شدید ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ یہاں تبدیلی کے نام پر ان کی خواہشوں کا مذاق اڑایا گیا ہے ان کے مستقبل کو دھندلایا گیا ہے انہیں سبز باغ دکھائے گئے ہیں مگر وہ کہاں ہیں؟

دو برس کے بعد بھی صورت حال تبدیل نہیں ہو گی اگرچہ بڑے ممالک دیو ہیکل پراجیکٹس کی خوشخبری دے رہے ہیں مگر فائدہ اہل اختیار و اقتدار ہی اٹھائیں گے اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ عوام پر بھی ان کے اثرات مرتب نہ ہوں، ہوں گے جو رائی برابر ہوں گے جس سے وہ فقط سانسیں لے سکیں گے جبکہ انہیں ضرورت ہے ایک پر آسائش نظام کی جو ان کو مصائب و مشکلات سے چھٹکارا دلا دے مگر افسوس ایسا ہونے کی امید دکھائی نہیں دیتی کیونکہ جو کہا گیا اس پر پہرہ نہیں دیا گیا اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ موجودہ حکومت پچھلی کا تسلسل ہے لہٰذا عام آدمی سوچتا ہے کہ اسے کیا ملا اپنا خون جلا کر وہی حکومت رہتی اسے کیا فرق پڑتا؟

بہرکیف مجھے یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ اہل اختیار عوام کی حالت زار سے بے خبر نہیں وہ مثالی نہ سہی ان کے لیے بہتر منصوبہ بندی کر رہے ہوں گے کیونکہ نئی سیاسی صف بندیاں اور نیا سیاسی عالمی منظرنامہ اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ ماحول میں بے چینی و کشیدگی نہ ہو نفرت آمیز لہجے نہ ہوں اور احساس لاتعلقی نہ پایا جاتا ہو ان کی موجودگی میں آگے بڑھنا مشکل ہو گا لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ عوام کو راحتیں ملیں گی مگر انہیں شریک اقتدار کبھی بھی نہیں کیا جائے گا یہ ”جمہوریت“ یہ سیاسی نظارے اور یہ قانون کی حکمرانی کی باتیں اسی طرح رہیں گے ہاں یہ سب اس روز تبدیل ہو گا جب عوام اپنی طاقت کے بل بوتے پر آگے آئیں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).