تاریک راہیں اور جدت پسندی کا مسافر


میں جدت پسندی کا مسافر ہوں۔ دو ماہ پہلے تک میں ایک روایتی معاشرے کا حصہ تھاجہاں خواتین کا گھروں سے نکلنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، جو خواتین سڑکوں پر نظر آتی وہ سیاہ برقوں میں ملبوس ہوتی۔ وہاں خواتین اور مردوں کا اختلاط ممنوع ہے، کالج اور یونیورسٹی میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کی مکمل طور پر علیحدہ عمارتیں ہیں۔ اذان کے بعد کاروبار جاری رکھنا اس معاشرے میں جرم تصور کیا جاتا ہے، نماز کے اوقات میں تمام دکانیں بند ہوجاتی ہیں۔

وہاں مذہبی پولیس کاباقاعدہ ادارہ قائم ہیں، جو معاشرے میں اسلامی روایات کے تحفظ یقینی بناتا ہے، عوامی مقامات و اجتماعات میں عام طور پر مذہبی پولیس کے اہلکار کسی قسم کی نازیبا حرکتوں کی روک تھام کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ میں اس ’قدامت پسند‘ معاشرے کو خیر آباد کہہ کر پاکستان آگیا، یہاں خواتین کے لباس پر کوئی پابندی ہے نہ اختلاط پر کوئی قدغن، مذہب اور کاروبار زندگی ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور نہ ہی کوئی حکومتی ادارہ زور زبردستی سے مخصوص روایات اپنانے پر عوام کو مجبور کرتا ہے۔ ہر شخص آزاد ہے، اور ہر شخص اپنی مرضی سے ’نارمل لایف‘ گزار رہا ہے۔ یہی نہیں، ہمارے معاشرے میں ایسی ’بہادر‘ شخصیات کی کمی نہیں جو معاشرے کو مزید آزادانہ حقوق دلانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

ایک چیز مجھے البتہ کھٹکتی ہے، ہمارے آزاد معاشرے کے عناصر کے جب قریب جاتے ہیں تو وہ بے روح محسوس ہوتے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے ہمارا معاشرہ نا معلوم منزل کی جانب گامزن ہے، جدت پسندی کی روشنیاں ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی ہیں، آزادی کے مراحل ہم طے کررہے ہیں، مذہب کو راستے سے ہٹا رہے ہیں، لیکن ہمیں یہ ہی نہیں معلوم کہ ہماری منزل کیا ہے۔ آزادی تو ہر شخص کی خواہش ہے، لیکن یہ عجیب آزادی ہے جس میں تقلید کی آمیزش ہے، ہم خواتین کو حقوق دیتے ہیں، لیکن اپنی روایات کے نہیں بلکہ مغربی اقدار کے مطابق، ہم اختلاط کو گوارا کرتے ہیں، کسی فائدے نقصان کی بنیاد پر نہیں، محض اس لیے کہ ہمارے سماجی پیشوا وں کا یہی رواج ہے، ہم معاشرے جیسے اہم سماجی ادارے میں صحیح، غلط، مقبول اورمعیوب کے پیمانے بھی سمندر پار سے درآمد کرہے ہیں! ہم آزادی، انسانیت، رواداری کی خوبصورت اصطلاحات کا ورد کرتے ہیں مگر ان کے عملی نفاذ کے جو ’درآمد شدہ‘ طریقے ہم استعمال کررہے ہیں وہ انہی الفاظ کی روح سے متصادم ہیں۔

معاشرے کے عناصرجو ان سماجی تغیرات سے متاثر ہورہے ہیں ان کی حالت قابل رحم ہیں، بالخصوص نوجوان طبقہ، جن کو جدت پسندی کے نام پر مصنوعی اور وہمی نظارے دکھائے جاتے ہیں اور ان کو ایسے ماحول کا عادی بنایا جاتا ہے جو ان کی روایت، ثقافت اور مذہب سے میل نہیں کھاتا، اس ماحول میں ان کے مادی وجود کو تسکین ضرور ملتی ہے لیکن ان کا روحانی وجود بے قرار ہوجاتا ہے، جس کی تسکین کے لیے اکثر نوجوان بے راہ روہوجاتے ہیں۔ جدید (ماڈرن) ماحول میں تربیت پانے اور تعلیم حاصل کرنے والے کسی نوجوان سے اس کی مشکلات پوچھے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی معصوم فطرت ان مصنوعی روشنیوں سے ناخوش ہیں، ان کو دل کا قرار اور سکون مطلوب ہیں، جبکہ جدید ماحول ان کو خوشی کاوہم بیچتا ہے، جس کی تاثیر جلد ہی ختم ہوجاتی ہے۔

جن ممالک کو جدت پسندی میں ہم اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں، وہاں بھی حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں، ایک رپورٹ کے مطابق 38 فیصد یورپین ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ان بی سی نیوز کی کے مطابق امریکا میں بے سکونی کا تناسب بڑھ رہا ہیں، اور اس کاشکار سب سے زیادہ نوجوان ہورہے ہیں۔ مغربی معاشرے میں سہولیات و کمالیات کے موجود ہونے کے باجود ذہنی بیماریوں کی یہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ خواہشات کی تکمیل سکون کی ضامن نہیں ہیں۔

بے سکونی و بے قراری کے نتائج بھی خوفناک ہوتے ہیں، امریکا میں 68 فیصد کالج کے طلبہ نشہ آور مواد استعمال کرنے کا تجربہ کرچکے ہیں، روشن فرانس کے صدر اعتراف کرتے ہیں کہ ان ملک میں ہر تیسرے دن ایک خاتون قتل ہوتی ہے، اس کے علاوہ مخلوط ماحول (جس کو اب ہمارے معاشرے میں ’نارمل‘ کہا جاتا ہے ) میں تعلیم حاصل کرنے یا کام کرنے والی خواتین جن مشکلات اور زیادتیوں کا سامنا کرتی ہیں اس کی تفصیلات ہوشربا اور افسوسناک ہیں۔ معروف برطانوی جریدے انڈپنڈنٹ کے مطابق خواتین سے بدسلوکی مخلوط ماحول کا کلچر ہے۔ 2015 کی رپورٹ کے مطابق علم کی مینارہارفرڈ یونیورسٹی میں 72 فیصد طالبات نے جنسی ہراسگی کاسامنا کیا!

میں جدت پسندی کا مخالف نہیں مسافر ہوں، لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جدت پسندی کی رائج اصطلاح ایک تاریک راہ ہیں، جس کا آغاز خواہش کی تکمیل کی امید سے ہوتا ہے اور انجام تباہ کن بے قراری اور بے سکونی کا ہوتا ہے، اور اس سفر میں فائدہ انہی کو ہوتا جن سے جدت پسندی کا مفہوم ہم نے در آمد کیا ہے۔ ہمیں یقینا جدت پسندی کی ضرورت ہے، لیکن ہماری ’جدت‘ ہماری روایات اور ہمارے معتقدات کے مطابق ہی ہوگی، اس کے علاوہ تمام راستے محض تاریک راہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).