بھارتی طیاروں کی ’’دخل اندازی‘‘


پاکستان اور بھارت کے درمیان آخری جنگ کارگل تک محدود رہی تھی۔ہمارے ہاں اس کے بارے میں ابتدائی اطلاعات بھی دیر سے آنا شروع ہوئی تھیں۔

بھارت مگر اپنے ملک میں NDTVجیسے24/7چینل متعارف کرواچکا تھا۔اس کے نمائندوں نے اس جنگ کو ڈرامائی انداز میں رپورٹ کرنا شروع کردیا۔ برکھادت اس حوالے سے CNN کی کرسٹینا ایمان پور جیسی دِکھنے کی کوشش کرتی رہی۔

بہت وقت گزرجانے کے بعد روزانہ کی بنیاد پر ان دنوں کے ISPR کے ترجمان نے کارگل جنگ کے بارے میں بریفنگوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان بریفنگز کی وجہ سے مگر وہ ’’جنگی ماحول‘‘ پیدا نہ ہوا جوبھارت کے نومولود24/7چینلز نے بہت سرعت سے بناڈالا تھا۔

جنرل مشرف بنیادی طورپر پاکستان میں 24/7 ٹی وی متعارف کروانے کو کارگل کے دنوں میں جمع ہوئے تجربات کی وجہ سے ہی مجبور ہوئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہمارا روایتی میڈیا اس جنگ میں پاکستان کی ترغیبات وترجیحات کو کماحقہ انداز میں پیش نہ کر پایا۔ بالآخر تاثر یہ پھیلا کہ شاید ہم اس جنگ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے تھے۔

منگل کی صبح اُٹھ کر کارگل کو میڈیا کے تناظر میں رکھ کر یاد کرنے کو اس لئے مجبورہوا کہ سوشل میڈیا پہ بھارتی طیاروں کی ’’دخل اندازی‘‘ کاذکر چھایا ہوا تھا۔ بھارت کے کئی نامور صحافی اپنے ٹویٹر پیغامات کے ذریعے تاثر یہ بھی پھیلارہے تھے کہ مودی سرکار نے اس دخل اندازی کے ذریعے ’’پلوامہ کا بدلہ‘‘ لینے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ بات فقط ایک ’’دخل اندازی‘‘ تک رُکے گی نہیں۔ بہت کچھ ’’اور‘‘ بھی ہوگا۔

ہمارے DG-ISPR نے مختصرٹویٹ کے ذریعے محض دخل اندازی کی اطلاع دی ہے اور اطمینان دلایا ہے کہ بھارتی طیاروں کو بروقت مداخلت کے ذریعے واپس لوٹ جانے کو مجبور کردیا گیا ہے۔

یہ کالم چھپنے تک مجھے ہرگز خبر نہیں کہ حالات مزید کیا رُخ اختیار کریں گے۔ذہنی طورپر نہ چاہتے ہوئے بھی میں جنگ کے امکانات کو شدت سے رد کردینے کی جرأت سے مگر محروم ہوں۔پلوامہ واقعہ کے فوراََ بعد لکھے کالموں میں تواتر کے ساتھ ذکر کرتا رہا ہوں کہ نام نہاد عالمی برادری اب کی بار پاکستان اور بھارت کے مابین ممکنہ ’’ایٹمی جنگ‘‘ کا واویلا نہیں مچارہی۔ چند ممالک شاید دل سے یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت پنجابی محاورے والا ’’کٹی یا کٹا‘‘ نکال ہی لیں۔

پاک- بھارت جنگ کے امکانات کا ذکر کرتے ہوئے 1998سے مسلسل Nuclear Thresholdکا ذکر ہوتا ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ اس جنگ میں اس مقام کا تصور کیا جاتا ہے جہاں روایتی ہتھیاروں کے استعمال سے دونوں ممالک اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ یہ ناکامی کسی فریق کو اس مقام پر ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کو مجبور کرسکتی ہے۔

عموماََ یہ بات بھی فرض کرلی گئی ہے کہ چونکہ روایتی فوجی توازن کے حوالے سے بھارت کو پاکستان پر برتری حاصل ہے،اس لئے پاکستان اس ’’مقام‘‘ پر خود کو بھارت سے پہلے پہنچا محسوس کرسکتا ہے۔ اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے لہذا ہم ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے میں پہل کریں گے۔

پاک بھارت جنگ کی ’’ایٹمی دہلیز‘‘ کے مسلسل ذکر کی وجہ سے کئی دفاعی مبصرین یہ بھی طے کربیٹھے کہ 1998کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے ایٹمی تجربات کی بدولت اس خطے میں Balance of Terrorقائم ہوچکا ہے۔ ٹھوس وجوہات کی بناء پر یہ ہمارے خطے میں دائمی امن کو یقینی بنارہا ہے۔

عسکری معاملات کے بارے میں قطعی جاہل ہوتے ہوئے بھی میرے خبطی ذہن نے Balance of Terrorوالی سوچ کو تسلیم کرنے میں ہمیشہ بہت دِقت محسوس کی ہے۔ پاک-بھارت مخاصمت کی ایک خصوصی جہت ہے۔اس جہت کو عموماََ عالمی تناظر میں دیکھتے ہوئے نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

میرا اصل شعبہ صحافت ہے۔ اس شعبے سے تعلق کی بدولت جمع ہوئے تجربات کی بدولت مجھے اصل فکر یہ ہے کہ کارگل اس وقت ہوا جب ہمارے ہاں 24/7چینل بھی موجود نہیں تھے۔ 2019میں تقریباََ ہر تیسرے شخص کے پاس سمارٹ فون ہے۔ سوشل میڈیا پر Citizen Journalists کی بھرمار ہے۔

کسی ’’خبر‘‘ کو’’مستند‘‘ بنانے میں سوشل میڈیا پر یاوہ گوئی خوفناک حد تک فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی قوت حاصل کرچکی ہے۔

جدید دور کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستانی ریاست سے استدعا ہی کر سکتا ہوں کہ ’’خبر‘‘کے درست اور مستند ہونے کے ضمن میں پہل کاری (Initiative)کو کسی صورت اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیں۔پاکستانی سوشل میڈیا کے صارفین کو بھی کوئی ’’خبر‘‘یا وڈیو کو شیئر یا Retweetکرنے سے قبل سو بار سوچنا ہوگا۔

مجھے اب بھی یہ گماں ہے کہ پلوامہ واقعہ کی وجہ سے بھارت میں بھڑکائے جنگی جنون کی تشفی کے لئے بھارت نے پیر اور منگل کی درمیانی رات اپنے طیارے محض Probing مشن کے لئے بھیجے۔ مودی سرکار اپنے لوگوں کو دکھانا چاہ رہی ہے کہ وہ ’’بدلہ لینے‘‘ کے امکانات انتہائی سنجیدگی سے ’’تلاش‘‘ کررہی ہے۔

ہمیں امکانات کی اس تلاش سے فی الوقت بھڑک اُٹھنے کی ضرورت نہیں۔ ہماری ریاست اور افواج ایسی Probingسے نبردآزما ہونے کی پوری قوت وسکت رکھتی ہیں۔ بھارت نے ’’کچھ اور‘‘ بھی کرنا چاہا تو اس کا مؤثر جواب بھی دیا جاسکتا ہے۔ ذہنی طورپر بدترین حالات کے لئے تیار رہتے ہوئے بھی ہمیں اس جنون سے ہر صورت محفوظ رہنے کی کوشش کرنا ہوگی جو بھارتی میڈیا کے دیوانوں نے پلوامہ کے بعد سے اپنے لوگوں پر مسلط کررکھا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).