مودی کے نام مہاتما گاندھی کا خط


26 فروری 2019
کل یگ
بمقام سورگ

آدھرنی پردھان منتری شری مودی جی، نمسکار! سب سے پہلے تو میں دیر سے سہی لیکن پلوامہ حملے کی کڑی نندا کرتا ہوں، اور آپ سے بِنتی کرتا ہوں کے حملے کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس کے بعد اب میں آپ جناب کی حیرانگی دور کرتا چلوں کہ کیوں میں نے آپ کو سورگ میں بیٹھ کر بھی تار بھیجنے کی زحمت کی تو ونیت پردھان منتری جی پلوامہ حملے کے بعد سے ہندوستان کی طرح یہاں سورگ میں بھی کم بے چینی نہیں پل پل کی قبریں یہاں پہنچتی ہیں تو دل بیٹھ جاتا ہے۔

کل جوہر لال نہرو صاحب ملے بہت ہی افسردہ اگر یوں کہیے آپ کے لیکھتوں کی بھاشا میں کہ منہ اترا ہوا تھا تو غلط نہ ہوگا۔ پھر سردار پٹیل ملے وہ بھی کچھ بجھے بجھے سے تھے اور ہمارے بھائی جناب مولانا ابولکلام آزاد صاحب تو انتہائی تشویش میں تھے۔ امن کے ویروں کی یہ پوری کی پوری ٹیم آپ کی جنگی جنون کی خوب آلوچنا کررہا تھا۔

تبھی گزرتے ہوئے اے پی جی ابولکلام ہمارے لٹکے چہرے دیکھ کے رک گئے اور حال چال کے بعد ملکی حالات پر اپنی تشویش کا اظہار کچھ یوں کیا کہ ہم خوف کے سمندر میں بہہ گئے۔ شری پردھان منتری جی وہ یوں کے جناب نے کہا کہ اگر جنگ ہوئی تو آخر تک یہ جنگ ایٹمی جنگ بن جائے گی اور چند ہی دنوں میں دو کروڑ پچاس لاکھ افراد لقمہ اجل بن جائیں گے پھر آنے والے دنوں میں دنیا کی پنتالیس فیصد آبادی شدت بھوک اور ریڈیشن سے مرجائے گی، اوزون تباہ ہوجائے گا اس لیے جِلدی کینسر دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی لوگوں کو مفلوج کرے گا۔ دنوں میں درجہ حرارت پچاس سے پچپن میں چلا جائے گا المختصر قیامت ہوگی اور دونوں ممالک کا فقط نام رہے گا عبرتناک داستانوں میں۔ اور اس سب کے ذمہ دار یقینا آپ ہوں گے۔

ہم انھی باتوں پہ بحث کررہے تھے کے خبر آئی کے پاکستان کے پردھان منتری نے ہندوستان کی زبانی جارحیت کا جواب اسی لہجے میں دیا ہے۔ تو مجھے یہ جنگ کا کھلا سنکیت لگ رہا ہے۔ اب میں سوچ سوچ کے حیران ہوں میں نے ساری زندگی آہنسا کا پرچار کیا اور امن و آشتی کا ہی پرچارک رہا اور اسی کی بنیاد پہ انگریز سرکار کو دیس بدر کیا، سمجھا تھا کہ ہم ایک پرامن ملک بنیں گے لیکن پردھان منتری جی آپ کی سوچ اور میڈیا نے میری پرچاروں اور اس پرچارک کو پریم میں بند کرکے دفتروں میں ٹانگ دیا آپ کی زندگی میں اس کا شائبہ بھی دکھائی نہیں دیتا اور جو کوئی امن دوستی پیار محبت کی بات کرتا ہے آپ اسے دیش دروئی قرار دلواتے ہیں۔ ایک میں تھا جس نے کہا تھا میں امن کا سپاہی ہوں اور ایک آپ جو بات بات پہ ہمسائیوں کو للکارتے ہیں۔ انھیں سبق سکھانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

ذرا سوچئے کیا جنگ سے مسئلہ حل ہوں گے؟
ہمارے بھائی ساحر نے تو کہا تھا کہ؎

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ مسئلوں کا حل کیا دے گی؟

ہم نے چار جنگیں لڑیں نتیجہ صفر۔ میں بشمول دوسرے رفقاء آپ کی بچکانہ حرکتوں سے تنگ آگئے ہیں۔ ہم ہندوستان کی جنتا سے ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں، آپ آہنسا کے دامن کو نہ چھوڑیں اور اپنے باپو کی تعلیمات کو مت ٹکرائیں۔

میں تو میڈیا کو جنتا کے دل میں زہر بھرتے دیکھ کر بہت ہی افسوس کرتا ہوں، اتنی افسوس کے سورگ بھی نرگ لگنے لگا ہے۔ اور یہ سب آپ کی ہی شہہ ہے۔ ایک ہمارے ہمسائے پردھان منتری ہے لاکھ اختلاف مگر اس شورش کے ماحول میں بھی عقلمندانہ بیان اور دوسرے آپ ہیں جنگ، جنگ اور جنگ کا ہی طبل بجائے جارہے ہیں۔ مجھے تو اروندھتی رائے کی باتوں پہ یقین ہوچلا ہے کہ آپ یہ سب ڈرامہ خود الیکشن جیتنے کے لئے رچاتے ہیں۔

تو آدھرنی پردھان منتری ہم سب کی آپ سے کڑی بِنتی ہے کہ آپ معاملات کو نرم مزاجی اور عقلمندی سے حل کریے کیونکہ آپ اور عمران دنیا کی آدھی آبادی کے لئے رحمت بھی اور زحمت بھی بن سکتے ہیں۔ تو بپن میاں کو سمجھائیے کپ آپ فوج کے سربراہ ہیں غنڈہ نہیں۔ آداب؎
آپ کا باپو، موہن داس کرم چند گاندھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).