اشتعال انگیزی سے گریز کی ضرورت ہے


آج صبح لائن آف کنٹرول پر بھارتی طیاروں کی نقل و حرکت کے بارے میں پاکستان اور بھارت کی طرف سے متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ تاہم دونوں طرف سےکیے گئے دعوؤں میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ بھارتی ائیرفورس نے لائین آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تین سے چار میل تک پرواز کی۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کے ٹویٹ پیغامات کے مطابق ’آج صبح بھارتی طیارے مظفرآباد سیکٹر سے لائن آف کنٹرول میں تین سے چار میل اندر آئے تھے۔

پاک ائیر فورس کے طیاروں نے جوں ہی انہیں چیلنج کیا وہ اپنا‘ پے لوڈ ’عجلت میں ایک کھلے علاقے میں پھینک کر واپس اپنے علاقے میں چلے گئے۔ تاہم اس سے نہ تو کسی عمارت کو نقصان پہنچا اور نہ ہی کوئی ہلاکتیں ہوئی ہیں‘ ۔ میجر جنرل آصف غفور نے یہ پیغام علی الصبح دیا تھا۔ تاہم اس کے چند گھنٹے بعد بھارتی سیکرٹری خارجہ نے نئی دہلی میں پریس کانفرنس منعقد کی اور اس ’حملہ‘ کی تصدیق کی۔

بھارت کے سیکرٹری خارجہ امور وی۔ کے۔ گھوکالے نے دعویٰ کیا کہ ’بھارتی ائیرفورس نے بالاکوٹ کے علاقے میں جیش محمد کے سب سے بڑے تربیتی کیمپ پر حملہ کیا اور بڑی تعداد میں دہشتگردوں کو ہلاک کردیا۔ اس حملہ میں اس بات کا دھیان رکھا گیا تھا کہ سول آبادی کو نقصان نہ پہنچے‘ ۔ ان کے مطابق بھارتی انٹیلی جنس کو اطلاع ملی تھی کہ دہشت گرد بھارتی علاقے میں نئے حملہ کی تیاری کررہے ہیں جس کی وجہ سے یہ کارروائی کی گئی اور اہم دہشت گرد کمانڈروں کو ہلاک کیا گیا۔

اس غیر معمولی واقعہ پر وزیر اعظم عمران خان نے فوری طور پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جس میں چئیرمین جائینٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، پاک فوج، بحریہ اور ائیرفورس کے سربراہان اور کابینہ کے ارکان شریک ہوئے۔ کمیٹی نے سرحدی خلاف ورزی کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان اس جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے اور اپنی مرضی کے وقت اور مقام پر اس کا بدلہ لیا جائے گا۔

قومی سلامتی کمیٹی نے بالاکوٹ کے نزدیک نام نہاد دہشت گرد کیمپ پر حملہ کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بھارتی حکومت کا جھوٹ اور مفاد پر مبنی من گھڑت قصہ قرار دیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے مطابق ’اس بھارتی بیان کامقصد بھارت میں ہونے والے انتخابات میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا ہے۔ لیکن ان حرکتوں سے علاقے کے امن و استحکام کو سنگین خطرہ لاحق ہؤا ہے‘ ۔ بھارتی فضائیہ کی اشتعال انگیزی کو ناقابل قبول جارحیت قرار دیتے ہوئے اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان اس حرکت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے اور اس مقصد کے لئے جگہ اور وقت کا تعین وہ خود کرے گا۔

وزیر اعظم عمران خان نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں افواج پاکستان کو ہر قسم کے چیلنج کے لئے تیار رہنے کا حکم دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ پاکستان، بھارت کے غیر ذمہ دارانہ رویہ اور جارحیت کے بارے میں عالمی قیادت سے رابطے کرے گا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس حوالے سے حکمت عملی ترتیب دینے کے کام کا آغاز کردیا ہے جبکہ وزیر اعظم نے ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النیہان اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان سے فون پر رابطہ کرکے انہیں صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ پاکستان کی درخواست پر تنظیم برائے اسلامی تعاون کا ایمرجنسی گروپ اس صورت حال پر غور کررہا ہے۔

حکومت پاکستان نے پیش کش کی ہے کہ جس مقام پر حملہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، وہ پوری دنیا کے لئے کھلی ہے۔ اس کا معائنہ و مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ حکام قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو اس علاقے میں لے جانے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ خود جائے وقوعہ کا مشاہدہ کرسکیں اور بھارتی دعوؤں کی قلعی کھل سکے۔ آئی ایس پی آر نے اس مقام کی تصاویر بھی جاری کی ہیں اور مزید فنی معلومات فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

برصغیر کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان اس قسم کی اشتعال انگیز ی اور جنگی صورت حال صرف اس علاقے کے امن و استحکام کو ہی خطرے میں نہیں ڈالتی بلکہ اس سے پوری دنیا کا امن متاثر ہوسکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت ایٹمی صلاحیت رکھنے والے دو ایسے ممالک ہیں جن کے لیڈر جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی بات کرتے ہوئے احتیاط کا مظاہرہ کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ اگر ان دونوں ملکوں کے درمیان اشتعال انگیزی میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ تصادم جنگ کی صورت اختیار کرتا ہے تو یہ اس خطے کے ڈیڑھ ارب لوگوں کے علاوہ دنیا بھر کے لئے اندیشہ و پریشانی کا سبب ہوسکتا ہے۔ اس تصادم کے نتیجہ میں صرف جوہری شو ڈاؤن کا اندیشہ ہی نہیں بڑھتا بلکہ افغانستان میں امن کی کوششوں اور پورے خطے ا ور مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی جد و جہد کو شدید نقصان پہنچے گا۔

14 فروری کو مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے علاقے میں ایک خود کش حملہ آور نے بارود سے بھری ہوئی کار نیم فوجی فورس کے اہلکاروں کو لے جانے والے ایک کانوائے میں دے ماری تھی۔ اس دھماکے کے نتیجے میں اب تک 49 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات موصول ہوچکی ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھارت سے کہا تھا کہ وہ اس بارے میں قابل عمل شواہد فراہم کرکے، پاکستان اس کی مکمل تحقیقات کروائے گا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ پاکستان میں سوچ اور طرز عمل تبدیل ہو چکا ہے اور اب نہ تو ہم اپنی سرزمین کسی دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دینے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی یہ قبول کرسکتے ہیں کہ تخریب کار دوسرے ملکوں سے پاکستان آکر یہاں کا امن و امان خراب کریں۔

پاکستانی وزیر اعظم کے واضح اعلان کے باوجود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور دیگر لیڈروں نے پاکستان دشمن بیانات کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ بھارتی میڈیا نے خاص طور سے ملک میں بدلے اور انتقام کا ایسا ماحول پیدا کردیا تھا کہ ملک کے مختلف حصوں میں آباد کشمیریوں کو خطرات لاحق ہوگئے اور انتہا پسند ہندو گروہ انہیں ٹارگٹ کرنے لگے تھے۔ جنگجوئی کا یہ ماحول اس قدر شدید ہے کہ بنگلور میں ایک مقبول بیکری کو ’کراچی‘ نام کی وجہ سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا اور مالکان نے کراچی کے لفظ پر بھارتی پرچم لگا کر اپنی جان چھڑائی۔

نفرت اور انتہا پسندی کے اس ماحول میں معقول اور متوازن بات کرنے والوں کو دھمکیوں کے علاوہ جان کا خطرہ لاحق ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اپنی حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے شدت پسندانہ بیانیہ کو مسترد کرنے والوں کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ ’کچھ لوگ رہتے تو بھارت میں ہیں لیکن وہ پاکستان کی زبان بولتے ہیں‘ ۔ اس ماحول نے حکومت کو چیلنج کرنے والے لوگوں کو چوکنا کردیا ہے۔ اس وقت بھارت میں جنگ مخالف کوئی طاقت ور آواز یا تحریک موجود نہیں ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali