سوشل میڈیا آرمی


ہمارے ہاں یہ عام روایت بن چکی ہے کہ کوئی عید تہوار ہو، کرکٹ میچ ہو، سیاسی الیکشن ہو یا جنگ، ہر چیز کا انعقاد و اہتمام دو جگہ پہ ہوتا ہے۔

ایک جگہ کے بارے میں تو سبھی جانتے ہیں کہ عید تہوار لوگوں کے درمیان شہروں دیہاتوں گلی محلوں میں منائے جاتے ہیں۔ کھیل میدان میں کھیلے جاتے ہیں اور عموماً گھروں میں بیٹھ کے ٹی وی پر ملاحظہ کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح الیکشن کا بھی مخصوص طریقہ ہے۔ باقی رہی جنگ تو اگلے وقتوں میں یہ رن میں آمنے سامنے لڑی جاتی تھی اور اب دور بیٹھے بموں اور طیاروں کے ذریعے چھیڑ خانیاں کی جاتی ہیں، ایٹمی جنگ کا رسک کوئی نہیں لینا چاہتا۔

دوسری جگہ جہاں پر تقریباً ہر حوالے سے اہتمام ہوتا ہے وہ ہے سوشل میڈیا۔

یہاں تہواروں میں سب ذوق و شوق سے شریک نظر آتے ہیں، حقیقت میں بھلے ہی بستر سے نکل کر منہ بھی نہ دھویا ہو۔ رنگ نسل، اور مذہب کی تفریق سے ہر ممکن اجتناب کیا جاتا ہے بلکہ اپنے علاوہ دیگر مذاہب کے تہواروں کی نا صرف خوش دلی سے مبارکبادیں پیش کی جاتی ہیں بلکہ ایموجی کے ذریعے گلے لگانے، منہ چومنے اور دلوں کا تبادلہ کرنے میں سبقت لے جانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

حقیقت میں بھلے ہی بادلِ نخواستہ کسی مقامی عیسائی کو پانی پلانے کے بعد اس کا جھوٹا گلاس کچرے کی نذر کر دیا ہو اور پانی پکڑاتے ہوئے ہاتھ کو عیسائی سے چھوئے جانے سے ہر ممکن طور پر بچایا گیا ہو۔

بات کھیل کی ہو تو مخالف ٹیم کو دشمن سمجھتے ہوئے اس کے یوں پرخچے اڑائے جاتے ہیں کہ میدان میں نظر آتا دوستانہ ماحول بھی مشکوک سا معلوم ہونے لگتا ہے۔

بات الیکشن کی ہو تو وہ لوگ جنہوں نے اپنا شناختی کارڈ بنوا کر ووٹ کا اندراج کروانے تک کی زحمت نہیں کی ہوتی وہ بھی الیکشن سے متعلقہ ایسے ایسے ماہرانہ تبصرے پوسٹ کرتے پائے جاتے ہیں کہ پڑھنے والا ان کی دانشوری اور سیاسی سوجھ بوجھ کا قائل ہو کر رہ جائے اور آخر میں (منقول) لکھا ہوا پا کر کبھی تو بدمزہ ہو اور کبھی خوش کہ پوسٹ کرنے والا جو ان کی نظر میں نالائق تھا واقعی نالائق ہی ہے اور قاری کا اس کے بارے میں خیال غلط ثابت نہیں ہوا۔

الیکشن کے دن کو چھٹی کے طور پہ منانے والے اپنی پارٹی کی حمایت میں اس کی اچھائیاں اور اوصاف بیان کرنے سے زیادہ دلچسپی مخالف پارٹی کو ذلیل کرنے میں ظاہر کرتے ہیں۔

اب جبکہ خطے میں جنگ کا ماحول بنتا دکھائی دے رہا ہے تو سرحدوں پر ہمارے جیالے اور سوشل میڈیا پر ویہلے ہائی الرٹ ہیں۔ ویہلوں کو جوش و جذبہ کسی طور بھی فوجی جیالوں سے کم نہ ہے۔

فوجی اپنے ہتھیار سیدھے کئے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا آرمر اپنی جگتیں اور بھڑکیں آزمانے میں مشغول۔ ان کی بہادری صرف یہیں تک محدود ہے کہ یہ لفظی بمباری سے دشمن کو زیر و زبر کر دیں۔ ہنگامی بنیادوں پر تیار کردہ صحیح، غلط، کمزور و توانا شعر اور نعرے مار مار کر دشمن کا منہ توڑ دیں۔

اساتذہ کے شعروں کو بگاڑ بگاڑ کر پیش کرتے ہوئے اپنی مخفی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور دیدہ دلیری سے اپنے ادب کے ساتھ بےادبی کریں۔ ان میں سے کئی تو رات دروازہ کھٹکھٹائے جانے پر خود اٹھنے کی بجائے بہن کو دروازے پہ بھیجتے ہوں گے کہ شاید آنے والا چور ڈاکو غیرت مند ہو اور زنانہ آواز پر ترس کھا کر پلٹ جائے۔

 کئی جو جنگی لائحہ عمل ترتیب دینے کے لیے تجاویز پیش کر رہے ہیں ان میں زیادہ تر ایسے ہوں گے جو اپنے لیے مضمون منتخب کرنے کی صلاحیت سے بھی عاری رہے ہوں گے اور ماں باپ کے کہے پر ڈاکٹر بننے کی کوشش میں مریض بنتے چلے جا رہے ہوں گے۔  کئی جو پائلٹ بننے کی خواہش میں جہاز بن گئے، وہ بتاتے نظر آئیں گے کہ جہاز کو ٹارگٹ کرنے کا کیا طریقہ ہوتا ہے۔

دیکھا جائے تو اس وقت ہمارا سچا مونس و غمخوار، ہمارے دکھ سکھ سا ساتھی، ہمارا بھلا برا برداشت کرنے والا واحد سہارا سوشل میڈیا ہے۔

یہاں ہم جو چاہیں وہ کردار اختیار کر سکتے ہیں اور اس کردار کی جیسی چاہیں جہتیں سامنے لا سکتے ہیں ہمیں نہ کوئی ہاتھ سے روکے گا نہ زبان سے اور انگلیوں سے رکنے والے ہم ہیں نہیں یعنی کی پیڈ اور کی بورڈ پر ٹائپنگ کے لیے چلتی انگلیاں ہمراہ انگوٹھے۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).