وہ اذیت ناک موت نہیں چاہتا تھا لیکن قانون اسے روکتا تھا


” جب میرے بیماری کی تشخیص ہوئی تو میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ نہیں کیا تاکہ بیماری مجھ پر مکمل غلبہ نہ پا لے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری بیوی اور بچے مجھے وقاراور اپنے جسم پر کنٹرول سے محروم، مفلوج جسم کے ڈھانچے والے ایک اپاہج کے طور پر یاد رکھیں۔ ہم کافی وقت دکھ میں گزار چکے ہیں، ہم تیار ہیں۔ میری بیوی اور بچوں کو پتہ ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے“۔

ٹورائے نے انٹرویو میں مزید کہا کہ شاید اس کی بات کسی کو انتہائی فضول لگے لیکن انہوں نے زندگی کا مقصد پا لیا جو دو فقروں میں بیان کیا جا سکتا ہے ”ہم یہاں اپنی بات کہنے، اپنی نوع کے ارتقاء، اس کو بڑھاوا دینے اور انسپائر کرنے کے لیے آئے ہیں۔ یہی دو باتیں رشتوں کو کمزور کرتی ہیں اور زندگی لوگوں سے عبارت ہے۔

چنانچہ جب کئی اجنبیوں نے ٹورائے سے پوچھا کہ کیا جمعہ کے روز وہ ان کے پاس موجود ہو سکتے ہیں۔ ٹورائے نے انہیں جواب دیا، ”مجھے بہت خوشی ہو گی۔ جب آپ آخری سانس لے رہے ہوتے ہیں اور آپ کے گرد انسان ہوں تو یہ ایک بہت اچھا احساس ہوتا ہے َ۔ میرے لیے خوشی مناؤِ، میں نے ایک بڑی اننگ کھیلی۔ مجھے کھانا ملا، چھت ملی، تعلیم حاصل کرنے اور سیاحت کا موقع ملا، میں نے اپنے خاندان اور ڈھیروں دوستوں کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا“۔

ٹورائے ایک ہفتہ پہلے سوئٹزر لینڈ پہنچے تھے، وہ شہر میں گھومے پھرے۔ آخری دن رائن دریا کے گرد گھومتے گزارا جو شہر کے شمالی مغربی حصے کے گرد سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا نظر آتا ہے، اور سامنے سے ایلپس کی برف پوش چوٹیاں نظر آتی ہیں۔ شام کے وقت انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر آخری بار کھانا کھایا جو ان کی زندگی بھر کی ساتھی ہے اور موت کے وقت بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے ساتھ آئی تھی۔ جہاں سے وہ ان کی راکھ کو مرتبان میں ڈال کر اپنے بچوں کے پاس لے جائے گی۔

بتایا جاتا ہے کہ زہریلا انجکشن لگوانے کے وقت جب ٹورائے نے سوئس ڈاکٹر کے سامنے اپنا ہاتھ بڑھایا تو ان کے چہرے پر احسانمندی، دکھ اور ڈر کے ملے جلے تاثرات تھے۔ لیکن اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اورچارہ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ اس کا متبادل بھی اتنے ہی خوفناک تھا۔ بیماری ہر لمحے ان کی آزادی اور وقار چھین رہی تھی اور عصبی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں نے بالاخر انہیں ایک زندہ لاش میں تبدیل کر دینا تھا۔ لہذا ان کے پاس ایک ہی صورت بچی تھی کہ وہ بہادری سے کام لیتے ہوئے اپنئی زندگی کا خاتمہ کر دیں۔

”یہ بہت عجیب ہے اور کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ میں یہاں کیا کر رہا ہوں؟ میں نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ تم کس صورت حال سے دوچار ہو اور اس نے تبدیل نہیں ہونا۔ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ اس وقت یہاں موجود ہوں کیونکہ اس کا متبادل بہت ہی مکروہ ہے“۔

ٹورائے کے محکمے مورننگٹن فائر بریگیڈ جہاں پچھلے سال تک وہ ایک افسر تھے، نے ٹورائے کے متعلق فیس بک پر پوسٹ لکھی۔ اتوار کے روز اس کی مان باربرا سپینسر نے دل چیر دینے والا یہ پیغام چھوڑا

”میرے خوبصورت بیٹے ٹورائے کے نام، مجھے تم پر کہ تم ایک بہترین فیملی ممبر تھے اور جو تم نے پیشہ ورانہ زندگی میں حاصل کیا ہے، اس پر فخر ہے۔ میرے دل تمہارے لیے تڑپ رہا ہے۔ میں تمہیں اپنی محبت بھیج رہی ہوں اور مجھے امید ہے کہ تم اسے اپنے دل میں محسوس کرو گے۔ جب تم اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گے تو میرے بازو تمہارے گرد لپٹے ہوئے ہوں گے، خدا حافظ میرے بچے۔ مجھے تم سے محبت ہے اور تم ہمیشہ میرے دل میں رہو گے۔
تمہاری ماں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2