انا کی جنگ، سرپرائز، مودی سرکار اور تبدیلی سرکار آمنے سامنے


پاکستان بھارت کے تعلقات ہمیشہ ہی سردمہری تنگ نظری اور کشیدگی کاشکار رہے ہیں۔ ان کو یہ زعم کے ہم تو خطے کے چوہدری ہیں تو ہم کو یہ گمان کے ہم بھی امت مسلمہ کا قلعہ ہیں۔ ادھر یہ خیال ہے کہ ہم دنیا میں گیم چینجر ہیں تو ادھر یہ قیاس کہ گیم کے ماسٹر مائنڈ ہم ہیں۔ ادھر ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی تو ادھر بھی اکیس کروڑ سے زیادہ ہی آبادی۔ ادھر دفاعی سازوسامان کی خریداری ہر سالانہ ساٹھ ارب روپے کا خرچہ تو ادھر بھی دفاعی بجٹ آٹھ ارب ڈالرز کو چھوتا ہوا۔

ادھر بھی غربت کی بھٹی میں جلتے عوام تو ادھر بھی بھوکے بلکتے عوام۔ ادھر بھی جنگ کا جنون عروج پر تو ادھر جذبہ شہادت اپنے جوبن پر ہے۔ وہاں بچوں کو بچپن سے بتایا جاتا ہے کہ سرحد پار دہشتگرد رہتے ہیں اور کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ تو یہاں بھی بچپن سے پڑھایا جاتا ہے کہ وہ ہمارے دشمن ہیں اور کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ بھارت میں اب مودی سرکار موجود ہے جس کا نعرہ ہی ہندوتوا ہے اور اس وقت تو الیکشن سر پر ہیں اور مودی سرکار کو اپنی نیا پار لگانے کے لیے ایک بار پھر پلوامہ حملے جیسے مظاہروں کی ضرورت تھی۔ اس کی آڑمیں مظلوم کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں اور منگل کی رات کو بھارتی طیاروں نے پاکستان میں آگئے اور پے لوڈ گراکر چلتے بنے جواب میں پاکستان نے بھی ان کے طیارے مار گرائے ہیں۔ دونوں جانب کا میڈیا اپنی جان توڑ کوشش میں ہے کہ جنگ کب شروع ہوگی اور کون جیتے گا

بھارتی میڈیا تو خیرسے رائی کا پیاڑبنانے کا ماہر ہے تو ادھر بھی کچھ کچھ مصلحتوں کے تقاضے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جنگ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہوگی؟ کیا مودی سرکار اور تبدیلی سرکار اپنی اپنی معاشی صورتحال میں اتنا بڑا قدم اٹھا سکتی ہے؟ کیا پونے دو ارب لوگوں کو ویسے ہی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں ان کو اس تباہی کی جنگ میں کتنا فائدہ ہوگا۔

کیا ہمارے سامنے افغانستان، شام، عراق اور کشمیر کی مثالیں موجود نہیں ہیں۔ یہ جیتے جاگتے جہنم دنیا کے لیے ہی عبرت کا نشان بن گئے ہیں۔

مودی سرکار کو اندازہ نہیں ہورہا کہ پاکستان نے اسی کی دہائی میں جن شدت پسند عناصر کو اپنا قومی سلامتی اثاثہ سمجھتے ہوئے سینے سے لگایا تھا وہ سینے کا ایسا ناسور ثابت ہوئے کہ نوے ہزار معصوم جانوں کی بھینٹ دینے کے باوجود ہم اب بھی اس ناسور سے جان چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ اس وقت مودی سرکار جو کہ خود بھی شدت پسند ہیں اگر شدت پسندی کو مزید ہوا دیں گے تو اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔

اپنی کرسی کے چکر میں مودی سرکار اپنی عوام کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کو تیار ہیں۔

جنگ شروع کرنا آسان ہوتا ہے مگر اس کو ریگولیٹ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جنگ میں کوئی نہیں جیتتا نہ ہی کسی کی ہار ہوتی ہے صرف تباہی ہوتی ہے جنگ شروع ہوتی ہے اور پھر اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔

مکمل جنگ میں یہ بھی عین ممکن ہے کہ بات نیوکلیئر ہتھیاروں تک پہنچ جائے اور یہ دنیا کے لیے بھی تباہ کن ہوگا۔ پاک بھارت جنگ کی صورت میں دنیا کی 90 فیصد آبادی ختم ہونے کا خدشہ ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی صورت میں پوری دنیا

دو ہفتوں میں جوہری دھویں کی لپیٹ میں آ جائے گی اور 90 فیصد آبادی بھوک سے ختم ہو جائے گی۔

تو کیا مودی سرکار اور تبدیلی سرکار اس انا کی جنگ میں ایکدوسرے کو ہی نہیں دنیا کو سرپرائز کرتے ہوئے امن کی طرف قدم بڑھاسکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).