سیف سپیس اور مادری زبان کا میلہ


جب آپ میری طرح ملک سے باہر رہتے ہیں تو آپ اس خواہش کے ساتھ جیتے ہیں کہ کاش کبھی اپنے وطن عزیز سے کوئی خیر کی خبر آسکے۔ مگر ہوتا ایسا نہیں ہے۔ یہ خبر کی ایک خصو صیت ہے کہ وہ جتنی بری ہوتی ہے اتنی بڑی ہوتی ہے اور جتنی اچھی اتنی ہی چھوٹی۔ ایسا نہیں کہ وطن عزیز میں اچھی چیزیں نہیں ہوتیں۔ مگر خبر اس وقت ہی بنتی ہیں جب چیزیں بری ہوں۔

جیسے میری دوست نے دیارغیر سے مجھ سے پوچھا کہ تم پاکستان میں ہو وہاں سب کچھ کیسا ہے؟ ٹویٹر پر تو لگ رہا ہے پاکستان اور ہندوستان ایک دوسرے سے جنگ شروع کرنے کے در پے ہیں۔ میں نے جوابا حیرت کا اظہار کیا اور کہا اچھا ایسا ہے؟ مجھے تو یہاں ایسا نہیں لگ رہا۔ یہاں تو موسم بہت اچھا ہے ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہے۔ خوش گپیاں ہو رہی ہیں مزے مزے کے کھانے کھائے جا رہے ہیں۔ ادب پر گفتگو ہورہی ہیں دوست یار مل رہے ہیں امن اور محبت کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مگر وہ خبر نہیں بن رہیں۔

پچھلے تین سال سے میں سات سمندر دور بیٹھ کر اسلام آباد میں ہونے والے مادری زبان کے میلے کی روداد تصاویر اور وڈیوز کی شکل میں دیکھ رہی تھی۔ اور سوچتی تھی پاکستان کی یہ وہ خبر ہے جو کچھ میرے مزاج کی ہے۔ جس میں رنگ ثقافت شاعری زبان کتاب ادب امن محبت موسیقی اور رقص جیسے ’ان پلوں کا ذکر ہوتا ہے جو کہ فاصلوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو انسانوں کو دور کرنے کے بجائے قریب لانے کا سبب بنتے ہیں۔ جو دلوں کو توڑنے کے بجائے جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ جہاں الفاظ کا جادو بولتا ہے۔ جہاں جذباتی ہونا کمزوری نہیں طاقت ہے۔ جہاں دھیمے لہجوں میں قوی باتیں کی جاتیں ہیں۔ جہاں عورت انسان کا درجہ رکھتی ہے۔

ان خوابوں اور خیالوں کو ساتھ لے کر جب میں اس سال اسی میلے میں شرکت کرنے آئی تو مجھ کو لگا جیسے ان تمام خواب و خیالات کو تعبیر مل گئی ہو۔ ایک ایسی فضا جہاں سٹیج پر بولنے والوں کے ساتھ نیچے کرسیوں پر بیٹھے لوگ بھی اتنے ہی جہاندیدہ اور پرجوش تھے۔ ایک دوسرے سے اجنبی پر ایک ان دیکھے دھاگے سے پروئے ہوئے۔ جیسے خواتین مندوبین میں کشور ناہید ’ثروت محی الدین‘ نیلم بشیر ’ثروت زہرا‘ نسیم سید ’ثمینہ احمد‘ سکینہ سموں ’شبنم گل‘ شہلا رضا اور ایسے ہی بہت سے اور نام شامل رہے۔

لوگ کہہ رہے تھے کہ اس مرتبہ لوگوں اور سیشنز کی تعداد پہلے کی بہ نسبت کم ہے۔ مگر مجھے لگا تعداد کم سہی معیار اچھا ہے۔ میلے کی افتتاحی تقریب میں جناب نیاز ندیم صاحب نے شرکاء کو بتایا کہ وہ اس میلے کی فنڈنگ کے لیے ہر صوبے کی حکومت کے پاس گئے مگرصرف حکومت صوبہ سندھ ہی ان کی خاطر خواہ مدد کرسکی جس کی وجہ سے شاید میلے میں سندھی زبان کے مندوبین زیادہ نظر آئیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی کی ساری زبانیں بولنے والے اس میں برابر سے شرکت کریں۔ صوبہ بلوچستان کے ادیبوں کی بھی خاصی تعداد موجود تھی۔ جیسے خاتون ناول نگار زاہدہ رئیسی جن کے نئے ناول کے عنوان کا اردو ترجمہ انہوں نے خود مجھ کو بتایا ”جب پیروں تلے زمین کھسک جاتی ہے“ جو کہ مجھے کافی باموقع اور برحالات لگا۔

جناب شاہ محمد مری نے میلے کا افتتاح ایک پرخیال اور پرجوش کلیدی خطبے سے کیا جس میں انہوں نے شرکاءسے وعدہ کیا کہ وہ آئے تو خالی ہاتھ ہیں مگر جاتے ہوئے ان کے دل اور ہاتھ بھرے ہوئے ہوں گے۔ اور ہوا بھی ایسا ہی۔ لوگ آتے جاتے تو رہے مگر دو دن میں مندوبین کی تعداد 300 سے 500 کے درمیان ضرور موجود رہی۔ میلے کی کوریج سوشل میڈیا پر بھی براہ راست نشر ہوتی رہی اور لوگ پوری دنیا سے اس میں شامل رہے۔ جناب خالد سہیل صاحب کے سیشن کے بعد ان کے ایک چاہنے والے نے ان کو بتایا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے چار افراد نے ان سے خواہش ظاہر کی کہ وہ خالد سہیل صاحب کو ان کی گفتگو پر سب کی طرف سے نذرانہ تشکر پہنچائیں۔

مجھے خوشی ہے کہ نصرت زہرا کی گفتگو میں میرے اس خیال کی تائید شامل رہی کہ اردو بالکل خطرے میں نہیں ہے۔ وہ پاکستان اور ہندوستان سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ خدارا اردو کے نام پر پاکستان کی دوسری قومی اور مادری زبانوں کے فروغ کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ ان زبانوں میں انڈس ویلی کی قدیم ثقافتیں پنہا ں ہیں۔ ان زبانوں کے ذریعے ہم اپنے خطے کی ثقافتی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا خاتمہ ہمارا اپنی زمین سے تعلق کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

مجھ جیسی عورتیں اتنی بہادر نہیں ہوتیں جو کہ شیما کرمانی کی طرح ٹھیک بم حملے کے اگلے دن شاہ بھٹائی کے مزار پر جا کر دھمال ڈال سکیں۔ ہم جیسوں کی خواہش ہے کہ ہم کو ایک ایسا محفوظ ماحول مہیا کیا جائے جہاں ہم اپنی آزادی کا جشن کھل کر بغیر کسی خوف و خطر کے منا سکیں۔ میرا خیال ہے مادری زبانوں کا میلہ وہ محفوظ جزیرہ مہیا کرنے میں کامیاب رہا۔ جس کی اختتامی تقریب میں نا صرف خواتین گلوکارائیں پاکستان کی چیدہ چیدہ مادری زبانوں میں علاقائی گیت پیش کرسکیں بلکہ ان گیتوں پر دھمال بھی ڈال سکیں۔

بس ایک کمی جو ہمیشہ خواتین کو سیف سپیس مہیا کرنے کی کوشش میں رہ جاتی ہے اس کی کمی لوک ورثہ میں بھی موجود رہی جو کہ خواتین کے لیے صاف اور قریب بیت الخلا کی موجودگی ہے۔ اس کو عموما غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ جب دانشور خواتین بھی ایک جگہ الگ اکٹھی ہوتی ہیں تو اسی موضوع پر تبادلہ خیال اور اسی کمی کا ذکر ضرور کرتیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).